Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نقیب اللہ محسود کیس شروع نہ ہوسکا

کراچی ( صلاح الدین حیدر) ایک سال گزرنے کو ہے کہ نقیب اللہ محسود کے قتل کا مقدمہ ابھی تک شروع نہیں ہوسکا۔ وجہ بہت سادہ ہے۔ اسے پولیس کے سینئر سپرنٹنڈنٹ نے جو ٹارگٹ کلنگ کا ماسٹر کہلاتا تھا 13 جولائی کو سرعام یہ کہہ کر کے وزیرستانی خوبرو نوجوان طالبان کے ساتھ دہشت گردی میں ملوث تھا قتل کردیا ۔ راو انوار برسوں ملیر میں عدالتی احکامات اور عوامی مطالبے کے باوجود نہ صرف گرفتار ہی نہیں کیا جاسکا بلکہ اپنی پوزیشن پر براجمان رہا۔ جب بہت شور مچا تو اس کے اور اس کے 25 ماتحتوں کے خلاف چارہ جوئی شروع ہوئی، مگر وہ پولیس کو چکمہ دے کر فرار ہوگئے۔ کئی مہینے تمام تر کوششوں کے باوجود منظرعام پر نہیں لایا جاسکا۔ یہ تو چیف جسٹس ثاقب نثار کا ہی کمال تھا جنہوں نے اسے عدالت کے سامنے پیش ہونے کی دعوت دی۔ اس وعدے کے ساتھ کہ اسے گرفتار نہیں کیا جائے گا۔ راو انوار نے عافیت اسی میں سمجھی کہ عدالت کے سامنے پیش ہوجائے۔ عدالت نے اسے ضمانت پر رہا تو کردیا لیکن اسے ملک سے باہر جانے سے روک دیا۔ راو انوار نے عرضی پیش کی کہ اسے عمرے پر جانا ہے ۔ عدالت پھر بھی راضی نہ ہوئی۔ اسے جیل بھیجنے کے بجائے، ملیر کنٹونمنٹ کے ایک گھر میں جسے سب جیل قرار دیا گیا۔، اس میں رکھا گیا۔ نقیب اللہ کے والد محسود کے وکیل صلاح الدین پنہور کے مطابق مقدمہ اس لئے شروع نہیں ہو سکا کہ آج تک ان تمام لوگوں پر فرد جرم عائد نہیں ہوئی۔ دہشت گردی کے مقدمات سننے والی عدالت نے کئی مہینے پہلے ضمانت کا فیصلہ 10 ملزموں کے خلاف محفوظ کر لیا تھا۔ 6 افسر اور دوسرے اہلکار جس میں سب انسپکٹر شیخ محمد شعیب عرف شعیب شوٹر، سب انسپکٹر صدا حسین، سب انسپکٹر امان اللہ مروت، ہیڈ کانسٹیبل شفقت حسین، کانسٹیبل محسن عباس، رانا شمیم اور رانا ریاض اب تک مفرور ہیں۔ باریک بینی سے مطالعہ کیا جائے تو 2 مئی 2018ءسے مقدمہ چلانے والی کورٹ نے سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس ڈاکٹر رضوان کی رپورٹ تسلیم کر لی تھی کہ راو انوار سمیت تمام پولیس افسران اور اہلکار قتل میں ملوث تھے۔ اس کیس میں ضمانت کا فیصلہ ہونا تھا لیکن کوئی اعلان نہیں ہوا۔

شیئر: