Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی خواتین کی 2خبروں میں امتیاز کیوں؟

مشاری الزایدی۔ الشرق الاوسط
چند روز کے دوران سعودی خواتین سے متعلق 2خبریں منظر عام پر آئیں۔ ایک خبر کو مغربی صحافت لے اڑی جبکہ دوسری خبر پر گریہ کرنے والے مغربی صحافیوں نے کوئی توجہ نہیں دی۔
سعودی شہریت رکھنے والی ایک لڑکی انجانی وجہ سے اپنے اہل خانہ سے ناراض تھی۔ کویت اور سعودی شہر حائل کے درمیان آتی جاتی رہتی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ تھائی لینڈ پہنچ گئی۔ اس کا کہناہے کہ وہ مجبور ہے۔ اہل خانہ اس پر تشدد کرتے رہے ہیں۔ ٹویٹر پر اپنے ٹویٹ میں اس نے اپنی اسی طرح کی بپتا پیش کی۔ مغربی میڈیا اس کے گریہ کو لے اڑی۔مختلف ممالک او ر تنظیمیں اسے سیاسی پناہ دینے کیلئے ایک دوسرے پر بازی لیجانے لگیں۔ تھائی لینڈ کے حکام نے اس لڑکی کی بابت اپنے بیان میں کہا کہ انہوں نے سعودی لڑکی ”رھف“ کی کہانی سنی مگر وہ ہمیں مطمئن نہیں کرسکی۔ سعودی لڑکی جمال خاشقجی کے مضامین کی نگراں کیرن عطیہ کی دلچسپی کا مرکز بن گئی۔ اس نے واشنگٹن پوسٹ میں اسے جگہ دیدی۔ 
دوسری خبر یہ ہے کہ سعودی مجلس شوریٰ نے بدھ کو کثرت آراءسے 15برس سے کم عمر کی لڑکیوں کی شادی پر پابندی عائد کردی۔ شوریٰ نے 18برس سے کم عمر کی لڑکیوں او رلڑکوں کی شادی کیلئے متعلقہ عدالت کی منظوری لازمی قرار دیدی۔ یہ فیصلہ کمسن لڑکیوں کی شادی کے مسئلے کی گتھی سلجھانے کے سلسلے میں غیر معمولی پیشرفت کا آئینہ دار ہے۔
انسانی حقوق کی قومی سوسائٹی کے رکن خالد الفاخری نے الشرق الاوسط میں اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مجلس شوریٰ کے مقرر کردہ یہ ضوابط حقوق اطفال کے اُس معاہدے سے پوری طرح ہم آہنگ ہیں جس پر سعودی عرب دستخط کئے ہوئے ہے۔ یہ ضوابط سعودی عرب میں تحفظ اطفال قانون کے بھی مطابق ہیں۔
سوال یہ ہے کہ مغربی اخبارات او رسیٹلائٹ چینلز نے تھائی لینڈ فرار ہونے والی سعودی لڑکی رھف کی خبر کو اتنی زیادہ اہمیت کیوں دی اور مملکت میں کمسن لڑکیوں کی شادی پر پابندی کی خبر کو کیونکر نظر انداز کیا؟
اگر سعودی خواتین کے جملہ مسائل سے مغربی صحافت، نجی تنظیمیں اور کیرن عطیہ جیسی عظیم صحافی خواتین غیر معمولی دلچسپی رکھتی اور لیتی ہیںتواصول پسندی کا تقاضا یہ تھا کہ انہیں رھف کی خبر سے کہیں زیادہ کمسن لڑکیوں کی شادی کی پابندی کی خبر سے دلچسپی لینی چاہئے تھی۔ ہم نہیں کہتے کہ انہیں رھف کی خبر نظر انداز کردینی چاہئے تھی البتہ ہم یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ انفرادی واقعہ کے مقابلے میں اجتماعی مفاد کی آئینہ دار خبر سے زیادہ دلچسپی لینی چاہئے تھی مگر ہوا اس کے برعکس کہ رھف کی خبر کی جملہ تفصیلات کو غیر معمولی کوریج دی گئی اور مملکت کی تمام کمسن لڑکیوں کی خبر کو یکسر نظرانداز کردیا گیا۔
لڑکیوں کے فرار کا واقعہ اور ان پر روشنی ڈالنا ان دنوں ناقابل فہم ہے۔حالیہ ایام سے قبل اس قسم کے واقعات کو اچھالنا قابل فہم تھا۔ اب جبکہ لڑکیوں کے فرار کے واقعات کا تانتا بندھا ہوا ہے اور سعودی عرب میں خواتین کو انکے حقوق دینے کا سلسلہ اور دائرہ کار پھیلتا چلا جارہا ہے، ایسے عالم میں ایک لڑکی کے فرار کے واقعہ کو اس اندازسے اچھالنا صرف اور صرف سیاسی اغراض و مقاصد کی تکمیل ہے، اس کے سوا کچھ نہیں۔ مغربی صحافت اور اس کی تنظیمیں سعودی عر ب میں خواتین کے معاملے کو لیکر مملکت کو بدنام کرنے کی سرتوڑ کوششیں کررہی تھیں۔ اب جبکہ خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت مل گئی ہے تو مغربی میڈیا کے ہاتھوں سے یہ ہتھیار نکل گیا ہے۔ یہ درست ہے کہ خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت مغربی دنیا اور اسکی تنظیموں کو خوش کرنے کیلئے نہیں کیا گیا بلکہ یہ خواتین کا فطری حق تھا جو انہیں دیدیا گیا۔ اس قسم کے معرکے چلتے رہیں گے۔ ہمیں یہ بات بھی مدنظر رکھنا ہوگی کہ مغربی میڈیا کی فحش گوئی ہمیں سعودی خواتین کے جملہ فطری حقوق دلانے کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: