Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آپریٹرز کا مؤقف

***محمد مبشر انوار***
گذشتہ تحریر ’’زائرین کی مشکلات‘‘ کے جواب میں ،آپریٹرز کا مؤقف بھی سامنے آیا ہے اوریہ ممکن نہیں کہ اپنی یا زائرین کی مشکلات کا ذکر تو کردوں مگر آپریٹرز کا وصول شدہ مؤقف بیان نہ کروں۔ یہاں یہ حقیقت واضح کردوں کہ پاکستانی ایجنٹ اس تمام معاملے میں نہ صرف شرمندہ ہیں بلکہ مجھ سمیت ان کے ایک اور جاننے والی فیملی بھی ایسی مشکلات بھگت چکی ہے،جس پر وہ اس ’’خدمت‘‘سے الگ ہونے کاسوچ رہے ہیں۔ ان کے اس کاروبار سے نکلنے کے باوجود یہ نظام ختم نہیں ہو گا اور ان کی جگہ کوئی اور اس ’’خدمت‘‘ پر مامور ہو کررزق حاصل کرے گا۔ ضیوف الرحمن سے متعلق خدمات کے حوالے سے یہ ممکن نہیں کہ حکومتی سطح پر یا حکومت کے زیر سایہ ان کے انتظام و انصرام کو یقینی بنایاجا سکے ۔میں ذاتی طور پرایسے معاملات کی نہ تو تشہیر پسند کرتا ہوں اور نہ ہی انہیں اپنی تحریر کا موضوع بنانا چاہتا ہوں تا وقتیکہ اس میں اجتماعی مفاد کا پہلو موجود نہ ہو،اس معاملے کو بھی سپرد قلم کرنے سے قبل دلی طور پریہ تسلی کر چکا ہوں کہ واقعتاً یہ معاملہ رائے عامہ کے مفاد کے ساتھ ساتھ پاکستان کی ساکھ کا بھی ہے،اسی لئے آپریٹرز کے مؤقف کو سپرد قلم کر رہاہوں ۔
پاکستانی ایجنٹ کی بابت میں لکھ چکا ہوں کہ وہ اس کاروبار کو فقط اس لئے چھوڑنے پر تیار ہو چکے ہیں کہ زائرین کی خدمت کرتے کرتے وہ کس طرح ان کی آہیں سمیٹ رہے ہیں،جو درد دل رکھنے کے ساتھ ساتھ خوف خدا کی نشاندہی بھی کرتی ہے کہ وہ زائرین جن سے ان کا ذاتی تعلق ہے اور جن کے لئے بطور خاص سعودی آپریٹر کو متنبہ کیا گیا کہ انہیں کوئی مشکل پیش نہیں آنی چاہئے،وہی زائرین سب سے زیادہ مشکل کا شکار ہوئے۔بہر کیف اب آتا ہوں سعودی آپریٹر کے جواب کی جانب،جو انہوں نے اس شکایت پر دیامگر اس سے پہلے ایک بات واضح کردوں کہ ہم پاکستانیوں کی یہ جبلت بن چکی ہے کہ ہم اپنی غلطی کو تسلیم کرنے کی بجائے اس پر اصرار زیادہ کرتے ہیں ۔اس شکایت کے بعد جو گفتگو سعودی آپریٹر نے کی،وہ بھی ایسی ہی تھی جس میں سارا زور اس بات پر تھا کہ جو سہولیات اس نے فراہم کی،وہ نہ صرف انتہائی مناسب بلکہ بہت اعلی تھی کہ جتنا گڑ اس کو دیا گیا تھا،اس میں اس سے زیادہ میٹھا ممکن نہ تھا۔ یہاں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے حوالے سے یہ واضح کردوں کہ حرمین میں بننے والے عالیشان قسم کے ہوٹلوں کی انتظامیہ ،اپنی عمارتوں کو مختلف ملکوں کے مقیمین کو سال بھر کی مدت کیلئے ٹھیکے پر دیتے ہیں ،اب یہ ان ٹھیکے داروں پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح اس سے نہ صرف اپنی سرمایہ کاری پوری کرتے ہیں بلکہ اس سے منافع بھی کماتے ہیں۔ انتہائی مناسب قیمت پر یہ ٹھیکیدار ’’خدمت خلق ‘‘ کے جذبے سے ان عمارتوں کا کنٹرول ایڈوانس کی’’انتہائی خطیر رقم‘‘ ادا کرکے سال بھر کے لئے اپنے نام کر لیتے ہیں،اور باقی ماندہ رقم زائرین سے وصول کرکے مالک کو ادا کرتے رہتے ہیں۔زائرین کی خواہش ہوتی ہے کہ انہیں حرم کے قریب ترین رہائش ملے،پاکستان میں تشہیرکے دوران اس میں مبالغہ سے کام لیا جاتا ہے اور اڑھائی سے تین سو میٹر کے اندر رہائش کے اشتہارات شائع کئے جاتے ہیں، اس میں سعودی آپریٹر حق بجانب ہے کہ اب یہ ممکن ہی نہیں۔ دوسری خواہش یہ ہوتی ہے کہ رہائش صاف ستھری ہو،روزانہ کی بنیاد پر صفائی ستھرائی ہو،کمرے میں بستروں کی تعداد عالمی معیار کے مطابق ہواور اسی نسبت سے کمروں میں افراد کو جگہ دی جائے (کہ حرمین کا سفر بھی عالمی سفر میں ہی شمار ہوتاہے)بستروں کا سائز معیار کے مطابق ہو،بستروں کے درمیان مناسب جگہ کا انتظام ہو،واش رومز صاف ستھرے ہوں،سفری سہولیات زائر کی خواہش کے مطابق اور قوانین کے مطابق ہوں۔ ان حقائق سے متعلق مقامی آپریٹر کا اصرار تھا کہ جو کمرے فراہم کئے گئے وہ تھری اسٹار ہوٹل کے ہیں،جن کا کرایہ ،آج کل،کم ازکم 130ریال یومیہ ہے جبکہ انہی کمروں کا کرایہ رمضان و حج میں 200-250بلکہ بسا اوقات اس سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ تسلیم !مگر کیا کوئی یہ بتانے کی زحمت کرے گا کہ ان کمروں کاکرایہ آسمانوں کو کیوں چھونے لگتا ہے؟کیا یہ حقیقت نہیں کہ یہ ٹھیکیدار اپنی من مانی پر اتر آتے ہیں اور سال بھر کی کمائی ان دو مہینوں میں جمع کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟ کیا یہی ’’خدمت‘‘ کرتے ہیں؟یہ آپریٹر حضرات اپنی ہوس کو چھپانے کی خاطر سارا الزام زائرین پر دھر دیتے ہیں کہ اگرانکو 5 ستارہ ہوٹل میں بھی کمرہ دیا جائے تب بھی یہ خوش نہیں ہوتے اورشکایات کرتے ہیں۔ ظاہری بات ہے کہ جتنی رقم وہ پاکستان میں دے کر آتے ہیں،اس کے مطابق اگر رہائش نہ ملے تو شکایت تو بنتی ہے۔ بندہ خدا!جو شخص یہاں عبادت کرنے آیا ہے اگر اسے ذہنی کوفت ہو گی،وہ کس طرح یکسوئی کے ساتھ عبادت کر سکے گا؟اس کے علاوہ جو انتہائی رعونت کے ساتھ کہی گئی کہ ان عمارتوں کی باقاعدہ انسپکشن بلدیہ کرتی ہے اور انہیں لائسنس ملتا ہے،اس لئے اگر کسی کو کوئی اعتراض یا شکایت ہے وہ وزارت الحج کے دفتر میں رجسٹر کروائے،اور حوالے کے طور پر (خدا جانے سچی یا جھوٹی)مثال بھی دی کہ کسی زائر کی زمزم ٹاور کے خلاف درج کروائی گئی شکایت کو وزارت حج نے غلط قراردیا تھا۔مجھے اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں کہ عمارتوںکو بلدیہ سے لائسنس ملے ہوں گے مگر کیا بلدیہ نے اس بات کی بھی اجازت دی ہو گی کہ2 بندوں کے کمرے میں ،بھیڑ بکریوں کی مانند،5 بندے گھسیڑ دیں؟جس کمرے میں ہمیں ٹھہرایا گیا ،زیادہ سے زیادہ،3 بندوں کی گنجائش رکھتا تھااور پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ بیڈز کے درمیان جگہ بھی مفقود تھی،تھری سٹار ہوٹل کا معیار قطعی ایسا نہیں ہوتامگر جھوٹ اور جواز در جواز کی کا کوئی علاج نہیں۔ 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں