Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بیرون مملکت سعودی لباس کے فائدے

طلال القشقری ۔ المدینہ
قولون کی تکلیف کبھی کبھار ہیجان انگیز ہوتی ہے۔ بسا اوقات بلا وجہ یہ تکلیف اٹھتی ہے اور انسان کو پریشان کر دیتی ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ قولون کے مرض میں مبتلا افراد کیلئے سعودی لباس زیادہ آرام دہ ہوتا ہے۔ میں نے اسکا تجربہ اس بار بیرون مملکت سفر کے دوران کیا۔ میں پہلے پتلون پہنتا تھا۔ اسکی وجہ سے امریکہ کے سیاسی دالانوں میں یہودی لابی جیسا پریشر اپنے اوپر محسوس کیا کرتا تھا۔ پتلون پہننے کے باعث درد بڑھ جاتا اور معدے میں آ رام کا احساس نو دو گیارہ ہوجاتا۔
میں نے اس بار پتلون کے بجائے سعودی لباس ”ثوب“ استعمال کیا۔ اس طرح میں پتلون کی تنگی اور بیلٹ کے دباﺅ سے محفوظ رہا۔ میں نے سوچا کہ اچھا مسلمان وہ ہوتا ہے جو دوسروں کیلئے بھی وہی پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔ مجھے پتلون سے نجات حاصل کرکے اور سعودی لباس استعمال کرنے پر جو آرام اور راحت ملی میں چاہتاہوں کہ دیگر حضرات بھی اس سے فائدہ اٹھائیں۔ ممکن ہے اس سے میرے اعمال صالحہ میں کچھ اضافہ ہوجائے۔
پہلا فائدہ تو جسمانی ہے جس کا تذکرہ میں کرچکا ہوں۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ ہر سعودی شہری کو اپنے قومی لباس پر فخر ہونا چاہئے۔ میں ہمیشہ سوچتا ہوں کہ لباس کے معاملے میں اغیار کی نقالی کیوں کروں۔ میرا قومی لباس اچھا ہے۔ اغیار کو بھی میرے قومی لباس کو اپنانا چاہئے۔ اس سلسلے میں ہماری نقل کرنی چاہئے۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے اس بات کا تذکرہ ایک برطانوی انجینیئر سے یہ سوال کرکے کیا تھا کہ برطانیہ کے لوگ کار اسٹیئرنگ کے سلسلے میں دنیا بھر کی نقالی کیوں نہیں کرتے۔ سارے جہاں میں کار اسٹیئرنگ بائیں جانب ہوتا ہے دائیں جانب نہیں۔ برطانوی انجینیئر نے انتہائی غرور کے عالم میں جواب دیا کہ دنیا کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں ہماری نقالی نہیں کرتی؟ یہاں سے میرے ذہن میں یہ سوال آیا کہ اگر اہل برطانیہ گاڑی کے اسٹیئرنگ اور ڈرائیونگ کے سلسلے میں بھی اپنی پہچان بنائے ہوئے ہیں اور اس پہچان سے چپکے ہوئے ہیں تو آخر ہمیں اپنا لباس زیب تن کرکے بیرون مملکت سفر کرنے میں کیا قباحت ہے؟
تیسرا فائدہ یہ ہے کہ غیر ملکی ہوائی اڈوں پر خارجی مسافروں کی تفتیش ہوتی ہے۔ اس موقع پر بیلٹ اتارنی پڑتی ہے۔ سیکیورٹی اہلکار اس وقت تک آپ کو معدنیات کو نمایاں کرنے والی مشین سے نہیں گزرنے دیتے تاوقتیکہ آپ بیلٹ نہ اتار دیں۔ آخری بار ایسا ہوا تھا کہ میں نے بیلٹ اتاری ، پتلون کا دائرہ بڑا تھا بیلٹ اتارتے ہی پتلون پھسل گئی۔ مجھے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ میں پتلون دونوں ہاتھوں سے پکڑے ہوئے مضحکہ خیز انداز میں مشین سے گزرا۔ میرا خیال ہے کہ دشمنوں کو بھی اس سے خوشی مل رہی ہوگی اور دوست بھی مسکرا رہے ہونگے۔
اسکا ایک فائدہ گھر سے باہر ٹوائلٹ جانے کی حالت میں بھی ہوتا ہے۔ ثوب پہننے کی صور ت میں سارا کام آسانی سے ہوجاتا ہے۔طہارت کے عمل میں بھی پریشانی نہیں ہوتی۔ پتلون کی صورت میں مشکل پیش آتی ہے۔ مسلم ممالک میں سعودی لباس پہننے والے کو حاجی کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے اس سے ایک الگ ہی خوشی ملتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: