Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رسول اللہ ﷺ کی سیرتِ طیبہ کااجمالی خاکہ

حسنِ اخلاق کا نتیجہ تھا کہ اکثرکفار مسلمان ہوئے اور دِل و جان سے آپ سے محبت کرنے لگے اور دشمن کی بجائے دوست بن گئے

 

مولانا ڈاکٹر عبدالرزّاق اسکندر ۔کراچی
    
گزشتہ سے پیوستہ

قارئین کرام! اِس آرٹیکل کی پہلی قسط 16نومبر2018کو شائع ہوئی تھی جس میں ہجرت حبشہ تک بات کی گئی تھی۔اب ہجرت مدینہ پر گفتگو پیش ہے۔
    مدینہ میں اسلام کی روشنی گھر گھر پھیل چکی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ  کو ہجرتِ مدینہ کا حکم فرمایا۔ قریش کو پتہ چلا تو انہوں نے دار الندوۃ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کا ناپاک منصوبہ بنایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کرلیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ منصوبہ خاک میں ملادیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کا حکم ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کافروں کے گھیرے سے بہ طمینان نکلے اورحضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچے، ان کو ساتھ لے کر غارِ ثور تشریف لے گئے، یہاں 3 دن رہے، پھر ہجرت فرمائی اور مدینہ کی نواحی بستی قباپہنچے۔
     1ھ :اِسلام کا نیا دور:
    یہاں سے اِسلام کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے۔ قبا میںآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا 14 دن قیام رہا۔وہاں ایک مسجد بنائی، وہاں سے مدینہ طیبہ منتقل ہوئے۔ حضرت ابو ایوب اَنصارِی رَضی اللہ عنہ کے گھر قیام فرمایا۔ مسجد نبویؐ  کی تعمیر فرمائی، اذان شروع ہوئی اور جہاد کا حکم ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت و جہاد کے لیے صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعتیں بھیجنا شروع کیں۔
    سرایا و غزوات:
    جس جہاد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود شریک ہوئے اسے غزوہ کہتے ہیں اور جس میں خود نہیں گئے، صحابہؓ  کی جماعت کو بھیجا، اسے سریہ کہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرایا کی تعداد47ہے اور غزوات کی تعداد27ہے۔ اس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے 3 دستے (سریے) روانہ فرمائے لیکن مقابلہ نہیں ہوا۔
    2ھ:
    اس سال غزوۂ دْوّان، غزوۂ بواط، غزو ۂ عشیرہ اور غزو ۂ بدر صغریٰ ہوئے۔ تحویلِ قبلہ کا حکم ہوا، روزہ رمضان، زکوٰۃ و فطرہ واجب ہوئے۔ اسی سال (رمضان میں) مشہور غزو ہ بدر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ313جاں نثار تھے اور قریش ایک ہزار،مگر شکست قریش ہی کو ہوئی۔ ان کے سردار مارے گئے اور70 قید ہوئے۔مسلمانوں کے 14 آدمی شہید ہوئے۔ اسی سال غزوۂ قرقرۃ الکدر، غزوۂ  بنی قینقاع اور غزوۃ السویق ہوئے، تینوں میں جنگ نہیں ہوئی۔ سیّدنا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا سے نکاح ہوا اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر رْخصتی ہوئی۔
    3  ھ:
    اس سال غزوۂ غطفان اور غزوۂ بحران ہوئے۔ مقابلہ نہیں ہوا، پھر مشہور جنگ اْحد ہوئی۔ قریش قبائلِ عرب کو اکٹھا کر کے بدر کے مقتولوں کا بدلہ لینے جبلِ اْحد کے پاس جمع ہوئے۔آپ ایک ہزار کی جمعیت کے ساتھ مدینہ سے باہر نکلے،300 منافق راستہ ہی میں پلٹ گئے۔دامنِ اْحد میں دونوں فوجیں لڑیں، کفار کو شکست ہوئی، ایک درّہ پر آپ نے تیر اندازوں کی ایک جماعت اس وصیت کے ساتھ مقرر فرمائی تھی کہ ہم مریں یا جئیں تمہیں بہرحال تاحکم ثانی اپنی جگہ رہنا ہوگا۔ ان میں سے بعض نے مسلمانوں کی فتح اور کافروں کی شکست دیکھ کر جگہ چھوڑ دی، دشمن کو لوٹ کر پیچھے سے حملہ کا موقع مل گیا۔جنگ کا پانسہ پلٹ گیا،70 صحابہؓ  شہید ہوئے جن کے سردار سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ آپ کا چہرۂ اَنور زخمی ہوا، سامنے کے دندانِ مبارک شہید ہوئے، اگلے دن آپ قریش کے تعاقب میں حمراء الاسد تک گئے مگر دشمن بچ نکلا، مقابلہ نہیں ہوا، اسی سال شراب کی حرمت نازل ہوئی۔
    4  ھ:
    اس سال غزوۂ بنی نضیر ہوا، آپ نے بنی نضیر کا محاصرہ کیا اور انھیں جلا وطن کیا، پھر غزوۂ ذات الرقاع ہوا، مقابلہ کی نوبت نہیں آئی، اس سفر میں ’’نمازِ خوف‘‘ اور ’’تیمم‘‘ کا حکم نازل ہوا، پھر غزوۂ اْحد صغریٰ ہوا۔ گزشتہ سال جنگ اْحد سے واپسی پر قریش کہہ گئے تھے کہ آئندہ سال پھر اسی مقام پر جنگ ہوگی۔آپ حسبِ وعدہ اْحد کی طرف نکلے لیکن قریش مقابلہ کے لیے نہیں آئے۔
     5  ھ:
    اس سال غزوۂ دومۃ الجندل ہوا۔ دشمن اپنے مویشی چھوڑ کر بھاگ گئے، پھر غزوۂ بنی مصطلق ہوا۔مقابلہ میں اس قبیلے کے 10آدمی مارے گئے۔ باقی قید ہوئے۔ انہی قیدیوں میں ان کے سردار حارث کی لڑکی جویریہ تھیں، آپ نے اُن کو آزاد کر کے اْن سے نکاح کرلیا۔یہ نکاح تمام قیدیوں کے آزاد کرنے اور ان کے اِسلام لانے کا ذریعہ بنا۔ پھر غزوۂ احزاب پیش آیا۔قریش نے تمام قبائلِ عرب اور یہود کو ساتھ لے کر10 ہزار کی تعداد میں مدینہ کا محاصرہ کیا۔مسلمانوں نے اپنی حفاظت کے لیے ایک لمبی خندق کھودی۔ قریش کا محاصرہ 15 دِن جاری رہا بالآخر اللہ تعالیٰ نے تند ہوا اور فرشتوں کا لشکر بھیجا اور دشمن ناکام لوٹا۔پھر غزوۂ بنی قریظہ ہوا اور یہود بنی قریظہ کو عہد شکنی کی سزا میں قتل کیا گیا۔اسی سال حج فرض ہوا اور پردہ کی آیات نازل ہوئیں۔
    6  ھ:
    اس سال غزوۂ بنی لحیان، غزوۃ الغابہ اور صلح حدیبیہ ہوئی۔رسول اللہ 14 سو صحابۂ کرام ؓکے ساتھ عمرہ کی نیت سے غیر مسلح مکہ مکرمہ کے لیے روانہ ہوئے۔ قریش نے مقامِ حدیبیہ میں آپ کو روک دیا۔ آخر کار چند شرطوں پر صلح ہوئی۔ ان میں سے ایک یہ تھی کہ دونوں فریق10 سال تک آپ سے میں جنگ نہیں کریں گے۔ اسی موقع پر ایک درخت کے نیچے بیعتِ رضوان ہوئی ۔ اسی سال آپ نے مختلف بادشاہوں کے نام دعوتی خطوط بھیجے، ان میں سے بعض مسلمان ہوگئے۔
    7  ھ:
    اس سال حدیبیہ سے واپسی پر خیبر فتح ہوا۔ مہاجرین حبشہ کی واپسی ہوئی، فدک مصالحانہ طور پر فتح ہوا، غزوۂ وادی القریٰ ہوا، آپ  صحابۂ کی معیت میں عمرۃ القضاء کے لیے مکہ تشریف لے گئے، وہاں تین دن قیام کے بعد واپسی ہوئی۔
    8  ھ:
    اس سال جنگ موتہ ہوئی، جس میں مسلمانوں کے 3 سپہ سالار حضرات ِزید بن حارثۂ، جعفر بن ابی طالب، عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم یکے بعد دیگرے شہید ہوئے۔ پھر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو امیرِ لشکر مقرر کیا گیا۔ دشمن کو شکست ہوئی اور کافی مالِ غنیمت ہاتھ آیا۔ اسی سال مکہ مکرمہ کی فتح کا عظیم واقعہ ہوا۔ قریش نے جنگ بندی کا معاہدہ توڑ ڈالا تھا۔ آپ 10 ہزار قدوسیوں کے ساتھ مکہ مکرمہ میں فاتحانہ داخل ہوئے۔قریش نے ہتھیار ڈال دیئے۔ آپ نے امنِ عام کا اعلان فرمایا، کعبۃ اللہ کے گرد و پیش سے بتوں کی نجاست کو صاف کیا، اِرد گرد کے قبائل میں بت شکنی کے لیے وفود بھیجے۔
    مکہ کی فتح:
    کون نہیں جانتا کہ مکی زندگی کے13سالوں میں مکہ وَالوں نے آپ اور آپ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم پر کیا کیا ستم ڈھائے، انھیں تپتی ریت اور آگ کی چنگاریوں پر لٹایا گیا، اْنھیں مکہ میں اَپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا گیا حتیٰ کہ انھیں شہید تک کردیا گیا۔ نبی کریم کو طرح طرح کی تکلیفیں دِی گئیں، آپ کے رَاستے میں کانٹے بچھائے گئے، نماز میں سجدہ کی حالت میں اونٹ کی اوجھڑی سر پر ڈالی گئی، یہاں تک کہ نبی پاک کے قتل کا ناپاک منصوبہ بنایا اور جب آپ اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے تو وہاں بھی اْن کے خلاف سازشیں رچیں اور جنگِ بدر، جنگِ اْحد اور جنگِ احزاب کی نوبت آئی۔    
    لیکن اب مکہ مکرمہ فتح ہوگیا ہے۔آپ ایک فاتح کی حیثیت سے اس شہر میں داخل ہوتے ہیں لیکن دنیا کے فاتحین کی طرح متکبرانہ اَنداز میں ہر گز نہیںبلکہ نہایت تواضع اور اِنکساری کے ساتھ، سرِ مبارک جھکائے ہوئے، ہزاروں جانثاروں کے ساتھ رَبّْ العزت کا شکر اَدا کرتے ہوئے۔ بیت اللہ کو بتوں سے پاک فرماتے ہیں اور اْس کا طواف فرماتے ہیں۔ مجمع اکٹھا ہوجاتا ہے۔ قریشِ مکہ آپ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں اور اْن کے دِل و دماغ میں وہ تمام جرائم آکھڑے ہوتے ہیں جو اْنہوں نے نبی اکرم اور آپ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ کیے تھے۔ آج یہ سب مجرم آپ کے سامنے سرجھکائے بیٹھے ہیں۔
    آج اگر آپ کی جگہ کوئی اور دْنیا کا فاتح حکمران ہوتا تو اَپنے دْشمنوں کے ساتھ کیا سلوک کرتا؟ غالباً وہی کرتا جو جابر حکمران کیا کرتے ہیںلیکن آپ اللہ کے رسول اور رحمۃ للعالمین ہیں، اخلاق کے اْونچے مقام پر فائز ہیں، جن کے اعلیٰ اور عظیم اخلاق کی تعریف خود بارِی تعالیٰ نے فرمائی ہے:
    وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ(القلم4)۔
    ’’اور بے شک آپ () بڑی بلند اخلاقی پر قائم ہیں۔‘‘
    آپ نے اْن سب سے مخاطب ہوکر فرمایا: تمہارَا کیا خیال ہے، آج میں تم سے کیا سلوک کرنے وَالا ہوں؟ سب نے بیک زبان جواب دِیا: آپ( )ایک شریف بھائی ہیں اور ایک شریف بھائی کے فرزند ہیں( یعنی ہم آپ سے اْمید رکھتے ہیں جو ایک شریف بھائی سے رَکھی جاتی ہے)۔ پھر آپ نے فرمایا: میں آج تم سے وہی بات کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف نے اَپنے بھائیوں سے کہی تھی:آج تم پر کوئی ملامت نہیں، اللہ تم کو معاف کرے اور وہ سب رحم کرنیوالوں سے زیادَہ رحم کرنیوالا ہے (یوسف 92 )۔
    یعنی سزا تو سزا ،آج میں تمہارے جرائم بھی یاد نہیں دِلاؤں گا کہ اْن کا تذکرہ کر کے تم پر ملامت کی جائے۔ پھر فرمایا:جاؤ تم سب آزاد ہو!۔
     آج رحم و کرم کا دن ہے، جو شخص ابو سفیان کے گھر داخل ہوجائے اُسے امن ہے، جس نے اپنے گھر کا دروازہ بند کرلیا اُسے امن ہے ، جو مسجدِحرام میں داخل ہوگیا اسے امن ہے۔
    اِسی حسنِ اخلاق کا نتیجہ تھا کہ اْن میں سے اَکثر مسلمان ہوئے اور دِل و جان سے آپ سے محبت کرنے لگے اور دْشمن کی بجائے دوست بن گئے۔
    نبی کریم نے جہاں اْمت کو کریمانہ اخلاق کی تعلیم دِی ہے، وہاں اپنے عمل سے اْن کے سامنے اعلیٰ اخلاق کا نمونہ بھی پیش فرمایا ہے۔ آپ کی یہ اخلاقی تعلیمات آپ کی زِندگی میں روزِ روشن کی طرح واضح ہیںجن کی نظیر انسانی تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔
    غزوۂ حنین:
    فتحِ مکہ کے بعد غزوۂ حنین ہوا۔ قبیلۂ ثقیف و ہوازن کے لوگ مقابلہ کی تیاری کر رہے تھے۔ آپ کو اِطلاع ملی تو 12ہزار کا لشکر ان کے مقابلہ میں لے کر نکلے۔بعض مسلمانوں کو خیال ہوا کہ اتنا بڑا لشکر کیسے مغلوب ہوسکتا ہے مگر دشمن نے تیروں کی بارش شروع کی تو مسلمانوں کے قدم اْکھڑ گئے۔ آنحضرت اپنے چند صحابہؓ کے ساتھ جمے رہے، پھر مسلمانوں نے پلٹ کر حملہ کیا، دشمن کو شکست ہوئی، کچھ مارے گئے، کچھ بھاگ گئے، ان کی عورتیں اور بچے قیدی بنے۔ تمام مال مویشی پر مسلمانوں کا قبضہ ہوا۔جو بھاگ نکلے تھے وہ طائف جاکر قلعہ بند ہوگئے۔ آپ نے19 دن تک طائف کا محاصرہ کیا، پھر آپ   جعرانہ واپس ہوئے۔ جنگِ حنین کے قیدی یہیں تھے۔ اتنے میں قبیلۂ ہوازن مسلمان ہوکر حاضر خدمت ہوا۔ آپ نے ان کے قیدی واپس کردیے۔ جعرانہ سے آپ نے عمرے کا احرام باندھا اور راتوں رات عمرہ ادا کر کے مدینہ طیبہ روانہ ہوگئے۔
    9  ھ:
    اس سال غزوۂ تبوک ہوا۔ آپ کو رومیوں کی تیارِی کی اِطلاع ہوئی۔ آپ 30 ہزار کا لشکر لے کر روم کی سرحد پر مقامِ تبوک پہنچ گئے لیکن رومی مقابلہ کے لیے نہیں آئے۔اَئیلہ کے سردار اور دوسرے قبائل نے جزیہ پر صلح کرلی۔ اسی سال رسول اللہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ’’اَمیرِ حج‘‘ بناکر بھیجا۔ یوم النحر میں اعلان کیا گیا کہ آئندہ کوئی مشرک حج کرنے نہیں آئیگا، نہ برہنہ طواف کرے گا۔ اسی سال مختلف علاقوں کے وفود آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہونے لگے۔

(جاری ہے)

شیئر: