Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

میرے شوہر بہترین دوست ہی نہیں، مشیر بھی ہیں،ڈاکٹر صوبیہ کاشف

عنبرین فیض احمد ۔ینبع
    ”وجود زن سے ہے تصویرِکائنات میں رنگ“ یہ حقیقت پر مبنی مصرع بچپن سے ہی نہ صرف سنا بلکہ شعور کی حدوں میں قدم رکھتے ہی اس احساس نے ہمیشہ اےک فخر اور تقویت عطاکی کہ جس گھر میں صنف نازک ماں کی صورت جنت ، بیٹی کی صورت رحمت اور بیوی کی صورت نعمت کا باعث بن کر عطا ہو جائے تو وہ گھر آسمان پر دمکتے چاند کی مانند اور گلشن میں گلاب کی مانند دل و دماغ کو راحت ہی عطا نہیں کرتا بلکہ پورے معاشرے کی تعمیر و تشکیل میں بھی ممتاز کردار ادا کرتا نظر آتا ہے ۔ صنف نازک جو طبعاً و فطرتاً کمزورمخلوق ہے لیکن اس کا وجود خاندان کےلئے کسی ستون سے کم نہیں۔ جس طرح اےک عمارت کا بوجھ ستون اٹھاتے ہیں، اس طرح عورت اپنے نازک کاندھوں پر اپنے خاندان جو کہ معاشرے کےلئے اکائی کی حیثیت رکھتا ہے ،اس کی تعمیر و ترقی کا بوجھ اٹھاتی ہے اور ستون کا کردار ادا کرتی ہے ۔ عورت خاندان میں باہمی محبت کامرکز ہے ۔ عورت اےک فرد واحد نہیں بلکہ اپنے آپ میں اےک منظم اور متحرک ادارہ ہوتی ہے۔ وہ ہمیں اپنے ہر روپ سے انصاف کرتی دکھائی دیتی ہے ۔ یہاں تک کہ عورت ہر طرح کے حالات خواہ زمینی و آسمانی آفات ہوں یا مشکلات ، وہ مرد کے شانہ بشانہ کسی چٹان کی مانند اپنا تعمیری کردار ادا کرتی دکھائی دیتی ہے۔ آج کی عورت نے دنیا کے ہر شعبے میں اپنے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں ۔
     ڈاکٹر صوبیہ کاشف اس ہفتے ہوا کے دوش پر اردو نیوز کے مہمان ہیں ۔ یہ ایسی شخصیت کی مالک ہیں جنہوں نے کم عمری سے ہی اپنے شعور کا لوہا منوایا ۔ ان کی صلاحیتوں کی وجہ سے نہ صرف ان کے گھر والے بلکہ عزیز و اقارب سبھی لوگ ان کے گرویدہ ہو گئے ۔ بیٹی کی حیثیت سے وہ ایسی خوشبو تھیں جن کے وجود سے ان کے گھر کا سارا آنگن مہک اٹھاتھا ۔ خاص کروہ اپنے بابا جان کی آنکھوں کا تارا بنی رہیں ۔ وہ سراپا محبت ہیں۔ نہ صرف میکے میں بلکہ سسرال میں بھی لوگ ان کو بہت پسند کرتے ہیں ۔
     ڈاکٹر صوبیہ کاشف کہتی ہیں کہ میرے والدین کا تعلق ہندوستان کے صوبہ بہارکے اےک گاﺅں دینہ سے ہے جہاں سے سید سلیمان ندوی صاحب کا تعلق بھی ہے جن کو دنیا اےک عالم دین کی حیثیت سے جانتی ہے ۔ میرے والد صاحب کو تعلیم کا بہت شوق تھا اور وہ اسکی اہمیت سے بخوبی واقف تھے ۔ میرے والد صاحب بچپن میں ہی یتیم ہو گئے تھے ۔ اس لئے وہ اےک سیلف میڈ انسان تھے۔ انہوں نے خود محنت کر کے کامیابی حاصل کی اور اےک کامیاب بزنس مین بنے ۔ میں نے ان کو ہمیشہ اےک شفیق باپ کے روپ میں دیکھا ۔ انہوں نے ہماری پرورش بھرپور انداز میں کی جس میں سب سے زےادہ اہمیت انہوں نے تعلیم کو دی ۔ ہماری تعلیم کے ساتھ ہمارے کردار کی تعمیر، ہماری حوصلہ افزائی اور پھر ہر شخص خواہ وہ غریب ہو یا امیر ان کو عزت دینا ان کے اصولوں میں شامل تھا ۔ میرا تعلق اےک متوسط طبقے سے ہے اور محدود وسائل کے باوجود والد صاحب کی انتھک محنت اور والدہ صاحبہ کی شفقت کے باعث ہم بہن بھائی کامیابیوں سے ہمکنار ہوئے ۔
    ماشاءاللہ ،ہم 9 بہن بھائی ہیں اور سارے اےک سے بڑھ کر اےک ہیں ۔ یہ سب میرے والدین کی محنت اور دعاﺅں کا نتیجہ ہے ۔ میرے سب سے بڑے بھائی نے والد صاحب کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے بزنس کا شعبہ اپنایا ۔ہر قدم پر ہمارے والد صاحب کی جانب سے ہماری رہنمائی اور حوصلہ افزائی رہتی ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وقتی ناکامی بھی ہمارے راستوں کی رکاوٹ نہ بن سکی ۔
     میرے دوسرے بھائی فوادکا انجینیئرنگ میں داخلہ نہ ہونا اور پھر اس کا چارٹرڈ اکاﺅنٹنٹ بننا اس کی سب سے بڑی مثال ہے ۔ میرا بھائی فہد ابوظبی میں اپنی کمپنی کا مینجر ہے اور دنیا کے مختلف ممالک میں اس نے اپنی کمپنیاں قائم کی ہیں ۔ میری بڑی بہن کی شادی کم عمری میں ہی ہو گئی تھی اور وہ انگلینڈ منتقل ہوئیں ۔ان کو تعلیم کا بہت شوق تھا لہٰذا انہوں نے اپنی ادھوری تعلیم شادی کے بعد مکمل کی ۔ میں اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی پڑھائی میں ہمیشہ ان کی مدد کیا کرتی تھی ۔ اس لئے میں اپنے بہن بھائیوں کےلئے اےک مثال تھی ۔ میرے سارے بہن بھائیوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور سب ہی اپنے اپنے شعبوں میں اللہ کریم کے فضل و کرم سے اعلیٰ کارکردگی دکھا رہے ہیں۔
اسے بھی پڑھئے:بیوی کو شوہر کے شانہ بشانہ چلنے کا حق ہے، ڈاکٹر مبینہ اختر
     میں نے روشنیوں کے شہر کراچی میں آنکھ کھولی ۔ابتدائی تعلیم دہلی اسکول سے حاصل کی ۔ اسکول میں میرا شمار ہونہار طالبات میں ہوتاتھا۔میں نے میٹرک امتیازی نمبروں سے پاس کیا اور دینہ ایسوسی ایشن سے سونے کا تمغہ حاصل کیا ۔بعدازاں ”پی ای سی ایچ ایس“کالج، کراچی سے کیا۔ میڈیکل کالج میں داخلہ میری بڑی خواہش تھی اور الحمدللہ ، میرے یہ خواہش اللہ کریم نے پوری فرما دی۔ اس میں میرے والدین کی دعائیں اوران کی انتھک محنت شامل تھی ۔ مجھے ”کے ایم ڈی سی“میں داخلہ ملا اور ساتھ ہی اسکالر شپ بھی مل گیا جو میری بہت بڑی کامیابی تھی ۔
    گوکہ میڈیکل کی پڑھائی کافی سخت اور محنت طلب ہوتی ہے، ہر بار میں ہمت ہار جاتی تھی مگر میری ماں ہر بار میری حوصلہ افزائی کرتیں اور میں پھر اےک نئے حوصلے اور عزم کے ساتھ پڑھائی میں مشغول ہو جاتی ۔ میڈیکل کے چوتھے سال میری منگنی ہوگئی اور طے پایا کہ شادی پڑھائی مکمل ہونے کے بعد ہو گی مگر بعض ناگزیر حالات کی وجہ سے میرے والدین کو میری شادی جلدی یعنی میڈیکل کے آخری سال میں ہی کرنا پڑی۔ اس وقت مجھے فکر کھائے جا رہی تھی کہ میں اپنے تعلیمی کریئر کو برقرار کیسے رکھ سکوں گی لیکن میرے شوہر جو خودبھی میری طرح ڈاکٹر ہیں، انہوں نے نیز میرے سسر اور ساس نے میرا بھرپور ساتھ دیا ۔ اتناساتھ کہ میں نے کبھی اس کا تصویر بھی نہیں کیا تھا ۔
    میرے شوہر کے چار بھائی ہیں اور ماشاءاللہ ، سب کے سب ہی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ میرے سسر اےک سربراہ کی حیثیت سے شفیق باپ کی طرح اپنے گھر کے ماحول کو ہمیشہ خوشگوار اور قہقہوں سے بھرپور رکھتے تھے لہٰذا زندگی کی بڑی سے بڑی پریشانیاں اور مشکلات کوبھی انہوں نے ہنستے مسکراتے گزار دیا ۔ انہوں نے میرے شوق کو مدنظر رکھتے ہوئے میرا بھی بھرپور ساتھ دیا جس سے ہمارے آپس کے بندھن مزید مضبوط ہوتے چلے گئے ۔
    ڈاکٹر صوبیہ کاشف کہتی ہیں کہ میرے شوہر جو خود اےک آرتھوپیڈک سرجن ہیں، میرے لئے شوہر سے زےادہ اےک دوست کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ میں نے اپنی زندگی میں بہت کم لوگوں سے دوستی کی کیونکہ دوستی کے انتخاب کے معاملے میں دیکھ بھال بہت کرتی ہوں اور دیکھ کر ہی میں دوستی کے لئے کسی شخصیت کو منتخب کرتی ہوں اس لئے میرے دوست زیادہ ہیں ۔ میرے شوہر کاشف میرے بہترین دوست ہی نہیں بلکہ میرے مشیر بھی ہیں ۔ انتہائی مصروفیات کے باوجود ہم دونوں میاں بیوی کے درمیان رابطے برقرار رہتے ہیں اور یہی ہماری خوشحال ازدواجی زندگی کا راز بھی ہے ۔
     شادی کے بعد پڑھائی جاری رکھنا اور پھر نئی زندگی میں توازن برقرار رکھنا یقینا میرے لئے اےک مشکل مرحلہ تھا ۔ فائنل ایئرکا امتحان سر پر تھا اور میری بیٹی کی پیدائش میری زندگی کا سب سے مشکل ترین دور تھا لیکن الحمدللہ، اللہ کریم نے میری مدد فرمائی۔ پڑھائی سے فارغ ہوتے ہی پھر ملازمت کا سلسلہ شروع ہو گیا جس کی وجہ سے طبیعت میں جھنجلاہٹ سی رہنے لگی لیکن جلد ہی مجھے احساس ہوا کہ دنیا میں کامیابی سے زیادہ زندگی میں سکون اور اطمینان اہم ہے۔ پھر سوچنے اور سمجھنے کا اندازکیا بدلا، میری پوری کی پوری زندگی ہی تبدیل ہو گئی ۔ یعنی یوں کہئے کہ مجھ پر زندگی آسان ہو ۔گئی مجھے ہر مشکل سہل لگنے لگی ۔
    صوبیہ کاشف نے کہا کہ میں نے اپنا بچپن اےک جوائنٹ فیملی میں بھرپور انداز میں گزار۔ والد صاحب کا مطالعے پر کافی زور رہتا تھا۔ وہ صحت مند بحث مباحثوں کے قائل تھے۔ بچپن سے ہی سارے کزنز کے درمیان کسی بھی موضوع پر بحث مباحثہ کروایا کرتے تھے۔ مشترکہ فیملی نظام کی وجہ سے ہر اےک کو عزت دینا اور ہر کسی کو اس کا رتبہ دینا ہمارے والدین نے بہت اچھی طرح ہمیں سکھایا تھا یعنی ہمارے والد صاحب کی تربیت کا انداز بہت مثبت تھا ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی ساری خصوصیات ہم سب بہن بھائیوں میں منتقل ہو گئیں ۔ میں اپنے والد صاحب کے سب سے زےادہ قریب تھی لہٰذا جب بھی بھائیوں کو اپنی کوئی بات منوانی ہوتی تو میرے ذرےعے وہ بات والد صاحب تک پہنچائی جاتی کیونکہ میرے والد میری کوئی بات نہیں ٹالتے تھے ۔
     بچپن سے ہی مجھے اور میرے بھائی فہد کو کتابوں سے بڑا عشق تھا اور ہم ہر ویک اینڈ پر والد صاحب کے ساتھ مارننگ واک پر جاتے اور واپسی پر ہمارے ساتھ ہماری فرمائشی کتابیں ہوا کرتی تھیں جو ہم اےک ہی دن میں ختم کر ڈالتے تھے۔ ہماری ساری پاکٹ منی بھی کتابوں کی نذر ہو جاتی تھی ۔ بچپن کی اےک عادت تھی جس پر اکثر والد صاحب مجھ پر ناراض ہوتے وہ تھی کہ میں درختوں پر چڑھ کر کتابوں کا مطالعہ کرتی تھی ۔
    میرے لئے سب سے تکلیف دہ مرحلہ وہ تھا جب مجھے ملازمت کے سلسلے میں 2005ءمیں سعودی عرب کے شہر جیزان آنا پڑا ۔ گھر والوں کو چھوڑ الیکن سب نے میری حوصلہ افزائی کی۔ بہر حال بےٹے کی پیدائش کی وجہ سے کچھ عرصے کےلئے مجھے ملازمت چھوڑنا پڑی لیکن جلد ہی پھر جاب کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ایسے میں بچے کو نگہداشت مرکز یعنی”ڈی کیئر سینٹر“میں چھوڑنا پڑتا کیونکہ یہاں والدین تھے اور نہ ہی سسرال والے جو اس وقت میری مدد کو آتے لیکن میرے شوہر کی حوصلہ افزائی کی وجہ سے میں نے دوبارہ ملازمت شروع کر دی ۔ آج میرا بیٹا سید زیان ،ماشاءاللہ 12سال کا ہے اور ساتویں جماعت کا طالبعلم ہے ۔وہ اےک ذہین ، ہونہار اور فرماں بردار بچہ ہے اور بیٹی عیشہ بھی بہت ذہین ہے۔ اس نے بھی اولیول کا امتحان بہترین نمبروں سے پاس کیا ہے جوبلا شبہ والدین کیلئے ایک طرح کی خوشی نصیبی ہے۔
    ڈاکٹر ہونے کے ناتے میرے لئے بہت مشکل تھا کہ میں اپنی فیملی اور اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں توازن رکھ سکوں مگر میرا مقصدِ حیات بالکل صاف اور واضح تھا۔ میں نے اپنے بچوں کی بہترین پرورش کی جس سے ہمیں کافی تقویت ملی ۔ میری ماں اےک ہاﺅس وائف ہیں جو بہت ہی رکھ رکھاﺅ والی خاتون ہیں۔ سلیقہ مندی تو شاید ان کے خون میں رچی بسی ہے ۔ نہ صرف ان کے ہاتھوں میں ذائقہ ہے بلکہ انہیں لوگوں کی مہمان نوازی کرنی بھی خوب آتی ہے ۔ اس لئے ہمارے دروازے مہمانوں کےلئے ہر لمحہ کھلے رہتے ہیں اور ہماری امی انہیں بڑی گرمجوشی سے خوش آمدید کہتی ہیں ۔
    محترمہ صوبیہ کاشف کہتی ہیں کہ جب جیزان میں ملازمت کے سلسلے میں آئی تو وہاں اےک بہت ہی تجربہ کار ڈاکٹرتھیں جن کا نام ڈاکٹر شرہا تھا، ان کا کہنا تھا کہ اپنے مریضوں کے ساتھ ہمیشہ اچھا برتاﺅکرنا چاہئے ۔ خواہ کیسے ہی حالات کیوں نہ ہوں۔ مریضوں کے ساتھ مسکرا کر پیش آنا چاہئے۔
    اےک دن میں بیٹھی اسپتال میں اپنے گھر والوں کو یاد کر رہی تھی کہ اچانک میرے کمرے میں میری اےک مریضہ داخل ہوئی۔ اس کے ہاتھ میں میری تصویر تھی جو اس نے خود بنائی تھی۔اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ میری مریض خواتین مجھ سے کتنی محبت کرتی ہیں ۔ پھر میں نے ریاض کے ایک معروف نجی اسپتال میں ملازمت کےلئے درخواست دی جو دوسرے دن منظور ہو گئی۔ الحمدللہ، میں آج 10سال سے اسی اسپتال میں خدمات سرانجام دے رہی ہوں۔یوں میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ میں نے اپنے آپ کو اپنے پیشے کےلئے بھرپور عزم کے ساتھ وقف کر رکھا ہے ۔
     میں زندگی کے ہر پہلو میں مثبت سوچ رکھتی ہوں۔ میری زندگی میں میرے والدین کی محبت بھی میرے لئے کسی عظیم سرمائے سے کم نہیں کیونکہ میں خود اےک ماں ہوں اور میری کوشش ہے کہ میں بچوں کی تعلیم اور کردار کی تعمیر میں مثبت کردار ادا کر سکوں ۔ میںہراچھے برے وقت میں اپنے شوہر کے شانہ بشانہ رہتی ہوں ۔ میرے نزدیک دولت ہی سب کچھ نہیں اور یہ کامیابی کا معیار بھی نہیں ۔بلا شبہ زندگی میں کامیابی ہی سب کچھ نہیں ہوتی بلکہ انسان کا اندرونی سکون اور اطمینان ہی انسان کا سرمایہ ہوتا ہے ۔ اصل خوشی اسی میں ہوتی ہے جب انسان اپنے خاندان والوں اور ملازمت کے ساتھ توازن برقرار رکھتا ہے ۔ اگر میرے والد صاحب زندہ ہوتے تو یقینا ان کی خوشی کی کوئی انتہا نہ ہوتی ۔ الحمدللہ، آج میں نے جو مقام حاصل کیا اسے دےکھ کر وہ یقینا خوش ہوتے۔
    محترمہ صوبیہ کاشف کہتی ہیں کہ میں اور میرے شوہر اکٹھے گھومتے پھرتے اور تفریح کرتے ہیں۔ ہم نے مختلف ممالک کی اےک ساتھ سیر کی اور یہ کافی دلچسپ سفر رہا ۔
    صوبیہ کاشف سے ادب پر بات ہوئی تو انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ زمانہ تعلیمی میں کافی شعروشاعری سے لگاﺅ تھا اور اکثر شعروشاعری پڑھا بھی کرتی تھی مگر اب ڈاکٹر ہونے کے ناتے مصروفیات زیادہ بڑھ گئی ہیں لیکن پھر بھی شعروشاعری سے شغف باقی ہے۔ قلیل شفائی کی غزل اردو نیوز کے قارئین کی نذر کرنا چاہوں گی:
پریشان رات ساری ہے، ستاروتم تو ہو جاﺅ
سکوت مرگ طاری ہے ،ستارو تم تو سو جاﺅ
ہنسو اور ہنستے ہنستے ڈوبتے جاﺅ خلاﺅں میں
ہمی پر رات بھاری ہے ،ستارو تم تو سوجاﺅ
ہمیں تو آج کی شب پوپھٹنے تک جاگنا ہوگا
یہی قسمت ہماری ہے ،ستارو تم تو سوجاﺅ
تمہیں کیاغم اگر لوٹے گئے راہِ محبت میں
یہ بازی ہم نے ہاری ہے ،ستارو تم تو سو جاﺅ
کہے جاتے ہو رو رو کر ہمارا حال دنیا سے
یہ کیسی رازداری ہے، ستارو تم تو ساجاﺅ
ہمیں بھی نیند آجائے گی ہم بھی سو ہی جائیں گے
ابھی کچھ بے قراری ہے، ستارو تم تو سوجاﺅ
 

شیئر: