Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹیسٹ کرکٹ میں ناکامیوں کی ذمہ دار انتظامیہ اور سلیکشن کمیٹی !

لاہور: پاکستانی ٹیسٹ کرکٹ ٹیم کی ناکامیوں میں سلیکشن کمیٹی اور ٹیم انتظامیہ بھی برابر کی شریک ہے اور صرف کپتان یا کھلاڑیوں کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ چیف سلیکٹر ، ہیڈ کوچ اور بیٹنگ کوچ سے پوچھا جائے کہ انہوں نے صورتحال کی بہتری کیلئے کیا اقدامات کئے اور ناکامیوں کا سلسلہ کیوں نہیں رک رہا ۔ تجزیہ نگاروں نے شائقین اور میڈیا کو بھی صورتحال خراب کرنے کا ذمہ د ار قرار دیا جو ایک فتح پرتمام خامیوں کو فراموش کرکے ٹیم کی غیر حقیقی مدح سرائی شروع کردیتے ہیں اور دوسرے ہی میچ میں ناکامی پر اسے ا ٓسمان سے زمین پر لا پھینکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ٹیم اور کھلاڑیوں کی خا میوں اور کمزوریوں کا ازالہ نہیں ہو رہا جس کے نتیجے میں ٹیسٹ ٹیم بیرون ملک سیریز کے ساتھ اب"ہوم گراونڈ" پر بھی ناکامیوں سے دوچار ہو رہی ہے ۔ ناقدین مسلسل ناکامیوں کے تناظر میں سرفراز احمد کو کپتانی سے ہٹانے کا مشورہ دے رہے ہیں لیکن چیف سلیکٹر اور ٹیم انتظامیہ کے کردار پر کوئی بات نہیں ہو رہی، وقت آگیا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ، ٹیم کے ہیڈ کوچ مکی آرتھر، بیٹنگ کوچ گرانٹ فلاور اور چیف سلیکٹر انضمام الحق سے بھی باز پرس کرے اور ضرورت پڑے تو انہیں تبدیل کرنے میں دیر نہ لگائی جائے ۔ان کا کہنا تھا کہ مکی آرتھر ڈھائی سال سے زیادہ عرصے سے ٹیم کی کوچنگ کر رہے ہیں لیکن چند ایک کامیابیوں کے علاوہ ان کی کوچنگ کے ٹیم پر مثبت اثرات نظر نہیں آئے۔ ٹیسٹ کرکٹ میں حالیہ ناکامیوں کی ذمہ داری بیٹنگ کوچ گرانٹ فلاور پر بھی عائد ہوتی ہے۔ گرانٹ فلاور تقریباً 4 سال سے ٹیم کے ساتھ ہیں لیکن اتنے طویل عرصے میں بھی وہ بیٹسمینوں کی تکنیک درست نہیں کر سکے کہ کس قسم کی وکٹ پر کیا حکمت عملی اپنائی جاتی ہے نتیجتاً پاکستانی بیٹسمین ٹیسٹ میں بھی ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے جیسی بیٹنگ کی کوشش کرتے ہیں اور نتیجہ بھی سامنے ہے۔ جنوبی افریقہ کے دورے میں 6 اننگز میں صرف 2 مرتبہ ٹیم 200 رنز سے اوپر جائے اور امارات کی وکٹوں پر 200 رنز سے بھی کم کا ہدف حاصل نہ کیا جاسکے تو بیٹنگ کوچ کی کارکردگی پر سوال ضروری ہیں۔ اسی طرح چیف سلیکٹر انضمام الحق اور ان کے ساتھیوں کی سلیکشن پالیسی بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔ عثمان صلاح الدین، سمیع اسلم، جنید خان اور فواد عالم کو ذاتی پسند اور ناپسند کی وجہ سے ٹیم سے باہر رکھنے کی باتیں عام ہیں ۔ اسی طرح مسلسل ناکام کھلاڑیوں کو ہر بار منتخب کرلینا بھی سوالات کو جنم دیتا ہے ۔تجزیہ نگاروں نے پاکستانی کھلاڑیوں کی اس روایتی کمزوری کا بھی تذکرہ کیا کہ یہ کھلاڑی ٹیم کے بجائے اپنے لئے کھیلتے ہیں کہ کسی طرح 40 یا 50 رنز بنالئے جائیں تاکہ اگلے میچ میں جگہ پکی ہوجائے۔جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز کے تناظر میں انگلینڈ کے سابق بیٹسمین کیون پیٹرسن بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیںپاکستانی ٹیم کا مسئلہ یہ ہے کہ کھلاڑی ٹیم کیلئے نہیں بلکہ اپنے لئے کھیل رہے ہیں، نصف سنچری کرنے کے بعد وہ یہ سوچ کرکہ اگلے میچ کیلئے جگہ پکی ہوگئی ہے اطمینان سے آوٹ ہوجاتے ہیں۔
 کھیلوں کی مزید خبریں اور تجزیئے پڑھنے کیلئے واٹس ایپ گروپ "اردو نیوزاسپورٹس"جوائن کریں
 

شیئر: