Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وہ اسے یوں دیکھ رہی تھی جیسے کوئی اونچائی کو سر اٹھا کر دیکھتا ہے

اُم مزمل۔جدہ

     وہ اسکول سے واپسی پر اپنے گھر کے سامنے کی گاڑیوں کا قافلہ دیکھ کر تعجب کر رہی تھی ۔وہ بچپن میں اسے دیکھ چکا تھا ۔ اس لئے اس کی حیرت پر مسکرا دیا۔ بڑے دادا جان نے آگے بڑھ کر سر پر ہاتھ رکھا اور کہا ،دیکھو تو ہم سب تم لوگوں سے ملنے آگئے ۔اس کے دادا جان نے کہا بھلا سرحدوں کا فاصلہ بھی کوئی حیثیت رکھتا ہے ۔جب دل ایک ہیں تو کوئی دوری، دوری نہیں۔
    یہ ایسا خاندان تھا جوہجرت کے بعد عدن پہنچا تھا۔کچھ عرصے کے بعد وہ سب زندگی کے میدان میں آگے بڑھنے اور اپنی تجارت کو وسعت دینے کے لئے دوسرے ملکوں کا بھی رخ کیا اور سوچ پہلے تو یہی تھی کہ چند سال کے بعد واپس اپنے آبائی وطن میں آجائیں گے لیکن وقت اتنی تیزی سے گزرا کہ پچوں کی تعلیم، اپنی تجارت اور سسرالی رشتہ داریوں نے واپسی کا موقع ہی نہ دیا۔ جب خط و کتابت ہوتی تو اسی خواہش کا اظہار ہوتا کہ ہم سب خاندان کو ایک دوسرے سے ملاقات کے لئے سفرضرور اختیار کرنا چاہئے اور آج وہ لوگ یہ وعدہ پورا کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ خاندان بھر کی باتیں اتنی تھیں کہ کوئی ایک بات شروع کرتا تو دوسرے کو کوئی دوسرا واقعہ یاد آجاتا ۔بزرگوں کی اپنی پرانی یادیں اور باتیں تھیں۔ نوجوانوں کو سیر سپاٹے کا اچھا موقع ہاتھ آیا تھا۔ وہ خوش تھے کہ اب امتحان کے بعد کئی ماہ کی چھٹی بھی ہوگئی ہے تو صحرا میں کئی روز قیام کا پروگرام بنایا جاسکتا ہے ۔
    وہ اپنی دادی جان اور نانی جان دونوں کی ہی لاڈلی تھی ۔ اتنے مہمانوں میں کسی وقت اس کی خادمہ اس کی پسند کے بارے میں پوچھنا بھول جاتی تو اس کی نانی جان کو فوراً معلوم ہوجاتا کہ وہ کچھ خاموش ہے اور یہی معلوم ہوتا کہ مہمانوں کی وجہ سے اسے اتنی توجہ نہیں مل پارہی جتنی کہ ہرروزملا کرتی تھی پھر داداجان کے آنگن میں اس کی عمر کا کوئی تھا بھی نہیں ۔سب اس سے کئی کئی سال بڑے تھے۔اس حویلی میں اسکول جانے والی صرف وہی ایک طالبہ تھی باقی تمام کا کالج میں داخلہ ہو چکا تھا ۔بچوں کو وقت کا پتہ ہی نہ چلا اور ڈھائی ماہ کی تعطیلات
 اپنے اختتام کو پہنچ گئیں ۔وہ سب آپس میں اتنے دنوں کے بعد ملنے پر بہت خوش تھے لیکن واپس جانا تھا۔واپسی پر ایسا لگاجیسے ہم باربار ملتے رہیں گے اور دوری کااحساس مٹا دیں گے۔ بچوں کا تعلیمی سلسلہ شروع ہوگیا بڑوں کی مصروفیات بھی بڑھ گئیں اور کئی جگہوں سے شادی کے دعوت نامے موصول ہوئے۔ اسے جو ایک بات کہنی تھی، اس کے لئے اسے اچھا موقع میسر آگیا تھا ۔اپنی دادی جان سے اس نے کہا کہ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ جہاں ہم اپنے رشتہ داروں سے ملنے اتنی دور کا فاصلہ طے کر کے گئے، انہیں یہیں لے آئیں؟دادی جان نے کہاکہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے ۔جب انسان ایک جگہ رہناسہنا شروع کر دیتا ہے تو وہاں سے کہیں دوسری جگہ جا کر دوبارہ بسنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔اس نے اپنے دل کی بات کہہ ڈالی۔ اگر ہم سب کو دوبارہ یہاں نہیں لا سکتے لیکن ایک کو تو وہاں سے یہاں اپنے گھر میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے لاسکتے ہیںناں؟ وہ چونک کر اس کی شکل دیکھنے لگیں پھر اس کی بات سمجھ کر کہا ”ہاں“ ایسا ہو تو سکتا ہے لیکن انہیں اس حوالے سے 3 اعتراضات ہو سکتے ہیں۔پہلا تو یہی کہ وہ اپنی اکلوتی بیٹی کو اتنی دور کیوں رخصت کر یں ؟5 بھائیوں کے بعد وہ اس دنیا میں آئی ہے۔ سب بھائیوں کی چہیتی ہے۔وہ سب اس بات پر اعتراض کریں گے۔ دوسری بات یہ کہ عمر کا فرق کافی زیادہ ہے اور وہ اس کم عمری میں اسی تعلیمی درجے تک پہنچی کہ اپنے اسکول کا اس سال امتحان دے دیا ہے ۔ وہ ان تمام نکات پر غور کرتا رہا پھر کہا کہ دادی جان آپ بزرگ ہیں،ہر بات کاآپ کو ٹھیک ٹھیک اندازہ ہے لیکن آپ خود بھی تو کہہ رہی ہیں ناں کہ کوئی بات بھی ناممکن نہیں۔ جب حکم ہو جاتا ہے تو کام ہو جاتا ہے۔ جب آپ لوگ اتنے سالوں سے نہیں ملے تو وقت بھی گزر رہا تھا لیکن جب آپس میں ملے تو ایسا ہی لگا ناں کہ ہم یہیں رہ جائیں سب پہلے کی طرح ایک ہی گھر میں صبح و شام گزاریں۔
    داد جان نے ان دونوں کی بات سن لی تھی ۔ان کی آنکھوں میں دبیز نمی نے ڈیرہ ڈال لیا تھا۔ اس کی بات اب ان کی دلی خواہش بن گئی تھی۔ انہوں نے اپنی طرف سے پیغام بھیجا اور وہاں سے بزرگوں کی جانب سے منظوری دے دی گئی۔ وہاں پر بھائیوں نے خاص کر والدہ نے یہی کہا کہ اتنی دوری ہے، فاصلہ ہے، مسافت ہے، پاسپورٹ اورویزا کے بغیر ملاقات نہیں ہو سکتی اور وہ یہی سمجھا تے رہے کہ آج جہاں دوری ہے وہاں آسانیاں بھی ہیں۔ جب چاہیں گی ملاقات ہو جائے گی۔ رشتے ناتے اپنے لوگوں میں طے کئے جائیں تو اطمینان رہتا ہے اور ہمارے تو خاندان بھر کی یہی خواہش ہو گی کہ ہم سب کے باہمی رشتے ناتے زیادہ مضبوط ہوں، فاصلے سمٹ جائیں۔
     کچھ مہینوں کی بات تھی اور ایک شاندار تقریب منعقد کی گئی ۔بزرگوں کی دعاﺅں کے ساتھ ایک نیا رشتہ جوڑا گیا۔ وہ اپنی کورس کی تمام کتابوں کے ہمراہ آئی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ جس طرح وہ روز اپنے کام کے لئے خادمہ کو وقت بے وقت چائے، کافی اور اسنیکس بنانے کا کہہ سکتی ہے، یہی سلسلہ یہاں بھی ہوگا لیکن اس کے شوہر نے یہی فرمائش کی کہ وہ ہر کام کے لئے مددگار رکھے لیکن وہ چاہتا ہے کہ کھانا وہ خود پکائے۔ وہ اپنے بارے میں بتانے لگی کہ اس نے کبھی کھانا نہیں بنایا۔پتہ نہیں کیسا بنے گا۔ وہ اطمینان سے کہہ رہا تھاکہ وہ جو کچھ پکائے گی، وہ شوق سے کھائے گا۔ یہ سوچے بغیر کہ کیسا بنا ہے ۔یہی کافی ہو گا کہ آپ نے میرے لئے محنت سے تیار کیا ہے ۔
    ڈیڑھ سال کے بعد دو بڑے بھائی، تعمیرات کے شعبے میں اپنی کمپنی کی جانب سے جمع کرائے گئے ٹینڈر کی وجہ سے کچھ دنوں کے لئے آئے۔ وہ یہ سن کر خوش ہوگئی ۔ میٹنگ کے بعد ہی اس نے بڑے بھائی کو فون کیا اور کہا کہ آج لنچ سب گھر پر ہی کریں ۔دونوں بھائی وقت مقررہ پر پہنچ گئے۔ اس نے خوشی خوشی تمام ڈشز ٹیبل پر سجانا شروع کیں۔وہ ہر ڈش کو دیکھ کر حیران ہو رہے تھے کہ یہ کون سی چیز ہے۔میٹھی ہے یا نمکین ؟کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ ایک بڑی ڈش میں مٹن چاول کا رنگین ملغوبہ، بہن نے یہ کہہ کر سب سے نمایاں جگہ پر رکھا کہ یہ ” مندی“ ہے جو اس نے بہت شوق سے بنائی ہے۔ دوسرے بھائی کی حیرت بھری آواز آئی کیا یہ کھانا جو تم نے ہمارے لئے تیارکیا ہے، کیا ہمار ے بہنوئی کو بھی یہی کھاناتناول کرنا ہوگا؟ وہ بہت اعتماد سے کہہ رہی تھی کہ وہ تومیرے ہاتھ کی ” مندی“ بہت شوق سے کھاتے ہیں۔ بڑے بھائی نے اس ڈش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ آج ایسا بن گیا ہے یا روز ہی ایسا بنتا ہے؟ وہ ابھی جواب دینا چاہتی تھی کہ زور دار انداز میں گاڑی کا ہارن بجا اور وہ بے حد خوش و خرم گھر میں داخل ہوا اوراپنے دونوں نسبتی برادران سے گرمجوشی کے ساتھ معانقہ کیا اور جب کھانا شروع ہوا تووہ دونوں برادران اپنے بہنوئی کو حیرت سے دیکھ رہے تھے جو چند ماہ کے بیٹے کو اپنی گود میں بٹھائے بہت رغبت سے کھانا کھا رہا تھا۔ گپ شپ بھی جاری تھی۔ انہوں نے جو کچھ کھانے کے نام پر پلیٹ میں لیا تھا، اس کا ایک لقمہ بھی نہ کھا سکے تھے ۔اپنی اکلوتی ہمشیرہ پرانہیں غصہ آرہا تھا اور دونوں کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا ۔
    اس کے منیجر کی جانب سے یاد دہانی کا میسج آنے پر وہ خوشگوار موڈ میں بتا رہا تھا کہ ایک ضروری میٹنگ کے بعد وہ فری ہوگا۔ بہنوئی کے دوبارہ آفس چلے جانے کے بعد ان بھائیوں نے بھی اپنی اپنی نشستیں چھوڑ دیں اور بہن سے کہا کہ تم آئندہ ہمیں لنچ کے لئے فون نہ کرنا۔“وہ چند منٹ کے بعد ہی فون پر اپنی والدہ سے کہہ رہے تھے کہ آپ اور نانی جان جیسے ہی ویزا ملے، پہلی فلائٹ سے یہاں پہنچیں۔ وہ معلوم کرنا چاہتی تھیں کہ کیا بات ہے لیکن انہوں نے جواب دیا کہ میں آپ کو فون پر نہیں بتا سکتا ۔ جب آپ آئیں گی اسی وقت معلوم ہوسکے گا اور آپ ہوٹل میں بھی نہیں ٹھہریں گی۔
     وہ گھر میں داخل ہوا لیکن یہ دیکھ کر پریشان ہو گیا کہ اس کی پھوپھی جان جس وقت سے گھر آئی تھیں، اپنی صاحب زادی کے ہمراہ کچن میں ہی مصروف تھیں۔ وہ کہہ اٹھاکہ آپ لوگ کیوں پریشان ہوتے ہیں اور ہماری بیگم کو بھی پریشان کرتے ہیں۔ مجھے کوئی پریشانی نہیں۔ جب تک وہ کچن میں رہتی ،وہ یہاں سے وہاں تک چہل قدمی کرتا رہتا۔ چند ہفتے کے بعد وہ اپنی بنائی ہوئی ڈشز کو ٹیبل پر سجے خود دیکھ رہی تھی کہ کس قدر لذیذ پکوان وہ بنانے لگی تھی لیکن اگر اس کے بھائیوں نے والدہ کو نہ مدعو کیا ہوتا تو شاید وہ یہ سب سیکھنے میں نجانے کتنا عرصہ لگا دیتی۔ وہ لنچ پر گھر آیا۔ وہ اسے ایسے دیکھ رہی تھی جیسے کوئی شخص کسی اونچائی کو سر اٹھا کر دیکھتا ہے۔ اس نے سوچا ہر وہ چیز جو بلند ہو، اہمیت رکھتی ہے لیکن انسان ان سب سے بلند ہے ۔خالق نے اسے یہ شرف بخشا ہے۔
٭٭ جاننا چاہئے ،سب سے اچھا انسان وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہے۔

 

شیئر: