Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بقالوں کی ملازمتیں سعودیوں کیلئے

برجس حمود البرجس۔مکہ

    وزارت محنت و سماجی بہبود مختلف شعبوں میں سعودیوں کو روزگار دلانے کی اسکیمیں نافذ کررہی ہے۔ ان میں ریٹیل، رینٹ اے کاراور گاڑیوں کے شورومز کی ملازمتیں شامل ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ وزارت محنت ، صحت ، انجینیئرنگ، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور کمیونیکیشن کے شعبوں کی سعودائزیشن کے پروگرام بھی نافذ کررہی ہے۔ تیسری جانب ہمارے سامنے بقالوں اور کھانے پینے کی اشیاء فروخت کرنیوالی دکانوں کی ملازمتیں بھی ہیں۔ دراصل روزگار طلب کرنیوالوں میں 65ہزار ایسے سعودی بھی ہیں جن کے پاس پرائمری یا میڈل اسکولوں کے سرٹیفکیٹ ہیں۔ بقالوں اور کھانے پینے کی اشیاء فروخت کرنیوالی دکانیں اس قسم کے سعودیوں کیلئے زیادہ مناسب ہونگی۔
    ہمارے خواب بڑے ہیں، ہم لوگ اعلیٰ اور درمیانے درجے کی ملازمتوں کے متلاشی رہتے ہیں۔ہمیں مناسب اور پیداواری ملازتیں عزیز ہیں۔ سعودی شہری اعلیٰ تنخواہوں والی اسامیوں کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔اچھی بات یہ ہے کہ وزارت محنت نے حال ہی میں صحت، انجینیئرنگ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں سعودیوں کیلئے مناسب ملازمتیں مخصوص کی ہیں۔ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ بے روزگار شہریوں میں 25ہزار ایسے بھی ہیں جن کے پاس پرائمری کے سرٹیفکیٹ ہیں۔ ان میں کچھ وہ بھی ہیں جن کے پاس پرائمری تک کے سرٹیفکیٹ نہیں ۔ 40ہزار ایسے ہیں جن کے پاس میڈل اسکول کے سرٹیفکیٹ ہیں۔ بقالوں کی سعودائزیشن سے 35ہزار مقامی شہریوں کو روزگار مل سکے گا۔بیشتر بقالے اور کھانے پینے کی اشیاء فروخت کرنیوالی دکانوں کے اصل مالک غیر ملکی ہیں۔ سعودیوں کے نام سے اپنا کاروبار کررہے ہیں۔ یہ بقالے اور یہ دکانیں نقلی تجارتی اشیاء اور زائد المیعاد کھانے پینے کی چیزوں کی نکاسی کے اڈے ہیں۔
    وزیر تجارت و سرمایہ کاری ڈاکٹر ماجد القصبی نے بڑی امید افزا بات کہی کہ بقالوں اور کھانے پینے کی اشیاء فروخت کرنیوالی دکانوں کی شکل و صورت تبدیل ہوگی۔ ان سے 35ہزار سعودیوں کور وزگار ملے گا۔ سعودیوں کے نام سے غیر ملکیوں کے کاروبار کا خاتمہ ہوگا۔
    میری سوچی سمجھی رائے یہ ہے کہ معمولی کام مناسب ردوبدل کے ساتھ سعودی خواتین و حضرات کے لائق بن سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر سعودی شہری تعمیرات ، رنگ روغن اور ٹائل فکسنگ کے کام میں دلچسپی نہیں رکھتے لیکن مستقبل قریب میں آلات کا استعمال متعارف کراکر یہ کام سعودیوں میں مقبول ہوسکتا ہے۔ ثانوی کے سرٹیفکیٹ رکھنے والے سعودی اس قسم کے پیشے اپنا سکتے ہیں۔
    بقالوں کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے ۔ اگر ان کی شکل و صورت تبدیل ہوجائے، اسمارٹ آلات اپلیکیشنز کا استعمال شروع کردیا جائے،بقالوں کو گوداموں سے جوڑ دیا جائے اور بقالوں کو سامان فراہم کرنیوالے اداروں سے مربوط کردیا جائے ،یہ سارے کام مواصلاتی نظام سے منسلک کردیئے جائیں ۔ایسے عالم میں سعودی شہری بقالوں کا رخ کرسکتے ہیں۔ ملازمتوں کی سعودائزیشن لیبر مارکیٹ کے مکمل نظام کا اٹوٹ حصہ ہے۔ بے روزگاری کی شرح کم کرنے کیلئے وسط مدتی اور طویل مدتی اسکیمیں متعارف کرانی ہونگی۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ آئندہ 5برسوں کے دوران 20لاکھ سعودی خواتین لیبر مارکیٹ کا رخ کرینگی۔ اس تناظر میں سیاحت ، تفریحات جیسے شعبوں کیلئے ابھی سے اپنے لڑکوں اور لڑکیوں کو تیاری کرانا ہوگی۔

مزید پڑھیں:-  --  - - -الحدیدہ میں اقوام متحدہ کیلئے سخت دن،ہالینڈ کے جنرل کی کار پر فائرنگ

شیئر: