Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اپوزیشن سے ڈرنے کی ضرورت نہیں

***صلاح الدین حیدر***
تمام تر مشکلات کے باوجود بھی وزیراعظم عمران خان مسائل کے حل کیلئے کوشاں ہیں لیکن انہیں بجائے اپوزیشن کے حامیوں کی طرف توجہ مرکوز کرنے کے خود اپنے ہی ساتھیوں کی غلطیوں کو صحیح کرنے کی ضرورت ہے۔ کئی ایک وزراء ایسے بھی بیانات دیتے رہے ہیں جن کی وجہ سے پاکستان میں نئی حکومت کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور وزیر ریلوے شیخ رشید کی زبان کو تالا لگانے کی فوری ضرورت ہے۔ اقتدار سنبھالتے ہی عمران خان نے 100 دن کے اندر مسائل پر قابو پانے اور ایک کروڑ نوکریوں اور 50 لاکھ مکانات کا وعدہ کیا جو وبال جان بن گیا۔ اپوزیشن روز ہی طعنے دیتی ہے۔ روپے کی قیمت گھٹ رہی ہے۔ اشیائے خوردونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ یہ وہ مسائل ہیں جن پر وزیراعظم کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ایک طرف تو سفید پوش لوگوں کی نوکریاں ختم ہورہی ہیں۔ بینک، صنعتیں اور کاروباری طبقہ پریشانی میں گھرا ہوا ہے تو دوسری طرف سندھ کے گورنر عمران اسماعیل اور کئی ایک وزراء کے پیچھے تھوڑے سے وقفے کے بعد دوبارہ گاڑیوں کے لمبے چوڑے قافلے پھر سے پروٹوکول کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ خود وزیراعظم تو اپنی بات پر قائم ہیں کہ ان کے پروٹوکول میں معمولی تعداد میں سیکیورٹی اور دوسری گاڑیاں ہوتی ہیں۔ سادگی کی مثال اگر عمران خان نے قائم کی ہے تو صدر عارف علوی اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے عہدہ سنبھالنے کے بعد کچھ دنوں تک تو ایئر پورٹ پر عام آدمیوں کے ساتھ لائن میں لگ کر بورڈنگ پاس لیا اور خود سے ہی اپنا سامان ٹرالی پر لے گئے۔ خلفاء راشدین کا زمانہ یاد آگیا لیکن یہ کچھ عرصے تھا۔ پھر لوگ بھی کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ عارف علوی اور شاہد محمود قریشی نے صرف فوٹو سیشن کیا تھا۔ صدر صاحب ایک مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کرنے گئے، سیکیورٹی کا یہ عالم تھا کہ باہر پولیس لوگوں کی جامع تلاشی لینے میں مصروف تھی۔ مسجد جو کہ اللہ کا گھر ہے اس کے باہر نماز ادا کرنے کیلئے لوگوں کی لمبی قطار لگی تھی۔ کیا یہی سادگی تھی؟ پھر اسے دکھاوے کے علاوہ کوئی اور نام دیا جائے تو یہ حضرات خود ہی بتا دیں۔ حزب اختلاف کی دو بڑی پارٹیاں، ن لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں نے ہی ایک نہیں بارہا کہا کہ عمران خان جیسے بھی منتخب ہوئے ہوں ہم ان کی حکومت گرانا نہیں چاہتے لیکن وہ خود ایسی حرکتیں کررہے ہیں کہ حکومت کو شاید بچا نہ پائیں۔ صرف چند روز پہلے ایم کیو ایم نے شکایت کی کہ ان کے 2 وزراء خالد مقبول صدیقی اور نسیم فروغ کو تو کابینہ میں شامل کرلیا گیا ہے لیکن عمران اور گورنر سندھ کے وعدے اب تک وفا نہیں ہوئے۔ عمران کو سمجھنا چاہیے کہ وہ پہلے تو اپنی کابینہ میں ردوبدل کریں۔ دو تین مرتبہ تو وہ کہہ چکے ہیں کہ کچھ وزراء اپنا کام صحیح طور پر نہیں کررہے ہیں لیکن ان کے پہلے کے اعلان کو جو کام نہیں کرے گا اسے وزارت چھوڑنی پڑے گی پر تو عمل نہیں ہوا۔ آج بھی وہی سارے وزراء اپنی جگہ موجود ہیں۔ انفارمیشن منسٹر کو خود اپنی تشہیر نہیں بلکہ وزیراعظم، صدر مملکت اور حکومت کی تشہیر کرنا چاہیے لیکن ہمارے ملک میں تو اور ہی ریت ہے۔ آج تک جتنے بھی وزرائے اطلاعات آئے ہوں ان کا کسی بھی جماعت سے تعلق رہا ہو، شیخ رشید ہوں، مشاہد حسین، یا آج کے فواد چوہدری یہ سب ہی زریں اصول سے ناواقف ہیں بلکہ مشاہد حسین، شیخ رشید اور فواد چوہدری ایسے بیانات اپنے وقت میں دیتے رہے ہیں۔ اب بھی دیتے ہیں جس کی وجہ سے حزب اختلاف کو اچھا خاصہ مواد مل جاتا ہے کہ حکومت پر حملہ کر کے عوام کو گمراہ کرسکیں۔ فواد چوہدری کچھ زیادہ ہی متحرک نظر آتے ہیں۔ بات چھوٹی ہو یا بڑی سب پر ہی تبصرے کرنے کا بڑا شوق ہے۔ نتیجہ ایک ہوتا ہے، دو مرتبہ تو انہیں معافی مانگنی پڑی۔ قائد اعظم مسلم لیگ کے لیڈر چوہدری پرویز الٰہی کے بیٹے مونس الٰہی پر تنقید کر ڈالی۔ پرویز الٰہی نے آسمان سر پر اٹھالیا۔ ق لیگ نے حکومت سے علیحدگی کی دھمکی دے دی۔ وزیر اطلاعات کو معافی مانگنی پڑی۔ آخر ان حرکتوں سے حاصل کیا ہوتا ہے؟ میری سمجھ میں تو آج تک آیا نہیں، وزراء خود ہی سمجھا دیں تو ممنون ہوں گا۔ ایم کیو ایم نے تو وزیر اعظم سے ملاقات کر کے کراچی اور حیدر آباد کیلئے رقم مانگ لی بلکہ عمران نے حیدر آباد میں ایک نئی یونیورسٹی کے قیام کا وعدہ کیا جس کا سنگ بنیاد وہ خود رکھیں گے۔ دوسری طرف بلوچستان نیشنل پارٹی کے سردار اختر مینگل نے شکایت کی کہ ان سے جو وعدے وعید کیے گئے تھے 6 نکات میں ابھی ایک بھی پورا نہ ہوسکے۔ ان کا ظرف تھا کہ انہوں نے حکومت نہیں گرائی، اگر حکومت خود ہی گر جائے تو اور بات ہے۔ پھر ہم دیکھیں گے کہ اسے سنبھال بھی سکتے ہیں کہ نہیں۔ عمران کو سوچنا چاہیے کہ ان کی حکومت محض 6 ووٹوں کی برتری پر قائم ہے، اگر اتحادیوں کو ساتھ لے کر نہیں چلیں گے تو اقتدار کو دھچکا پہنچ سکتا ہے۔ پھونک پھونک کر سوچ سمجھ کر کیوں نہ قدم اٹھایا جائے۔ اپوزیشن متحد ہونے کی کوشش تو کر رہی ہے لیکن یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوتا نظر نہیں آتا۔ پیپلز پارٹی آصف زرداری اور بلاول سمیت ہاتھ دھوکر پیچھے پڑ گئے۔ زرداری نے نواز شریف کو جیل میں پیغام بھی بھجوایا لیکن ابھی تک تو کچھ حاصل نہیں ہوسکا۔ ن لیگ اپوزیشن کا کردار ادا کررہی ہے لیکن ساتھ ہی فوجی عدالتوں کی دوبارہ بحالی پر تحریک انصاف کا ساتھ دینے کیلئے تیار ہے۔ زرداری اس کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں۔ ظاہر ہے انہیں خوف ہے کہ منی لانڈرنگ کے مقدمے میں وہ اور ہمشیرہ فریال تالپور پوری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔ زرداری اور فریال کے گرد گھیرا تنگ ہوتا نظر آرہا ہے۔ جان بچانی مشکل ہوگئی۔ خود پیپلز پارٹی میں اختلافات ہیں۔ زرداری بھرپور مخالفت کرنے میں سب سے آگے ہیں۔ اپوزیشن الائنس کی حمایت کے بھی حامی ہیں لیکن بلاول نے کسی بھی متحدہ محاذ کی کھل کر مخالفت کی۔ جہاں یہ صورت حال ہو وہاں عمران کو اپوزیشن سے ڈرنے کی ضرورت نہیں لیکن اپنی صفوں میں تو اتحاد پیدا کریں۔
 

شیئر: