Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہمشیر گان

***جاوید اقبال***
مماثلتیں بھی کتنی بھیانک ہوجاتی ہیں اس کا اندازہ کل ایران کے شہنشاہ آریا مہر محمد رضا شاہ پہلوی کے 1980ء میں برطانوی صحافی سرڈیوڈ فراسٹ کو دیے گئے ایک انٹرویو سے ہوا۔ اپنے زوال کے اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے شاہ ایران نے کہا کہ جنوری 1978ء سے پیشتر ان کے ملک میں حالات قابل فخر حد تک پر سکون تھے۔ اگلے 4,3 ماہ میں ہی چند نادیدہ عناصر نے کوچہ و بازار میں بے چینی پھیلائی جو بالآخر شاہ کے وطن چھوڑنے پر منتج ہوئی۔ ایک گھنٹے کے اس انٹرویو میں شہنشاہ نے تفصیلاً ان خارجی عوامل کے کردار پر روشنی ڈالی۔ لیکن ٹھہریں! میں آپ کو وہاں لیے چلتا ہوں جہاں اس چشم و جاہ کی داستان نے عروج پکڑا تھا۔ 26 اکتوبر 1971ء کو آریا مہر محمد رضا شاہ پہلوی کی تہران کے قصر میں رسم تاجپوشی ادا کی گئی تھی لیکن اس سے 2 ہفتے پیشتر صوبہ فارس کے 2 ہزار 500 سالہ قدیم دارالسلطنت تخت جمشید پر شہنشاہ اور ان کی ملکہ شہبانو فرح پہلوی نے اس مختصر شہر کے کھنڈروں میں جاکر سلطنت فارس کے بانی شہنشاہ کوروش کبیر کے مقبرے پر حاضری دے کر اس کی قدیم سلطنت کو دوام عطا کرنے کا عہد کیا تھا۔ 12 سے 14 اکتوبر تک شہنشاہ اور ملکہ نے شیراز کے ہوائی اڈے پر مدعو کیے گئے مختلف روئو سائے سلطنت کا استقبال کیا۔ ان مہمانوں کے قیام و طعام کیلئے ایک خصوصی شہر خیام قائم کیا گیا تھا جو 56 خیموں پر شتمل تھا۔ 16 اکتوبر کو جب سب کچھ اختتام پذیر ہوا تو ان انتہائی معزز مہمانوں کو تخت جمشید سے 25 میل دور واقع شہر شیراز کے ہوائی اڈے سے الوداع کہا گیا پھر اگلے 10 دن ایران کے گلی کوچوں میں مسرت و شادمانی تھی، خود فراموشی تھی۔ 26 اکتوبر 1971ء کو تخت طاوس پر متمکن ہونے والے شہنشاہ کا خیال تھا کہ سب کچھ ٹھیک ہے لیکن رعایا میں عسرت اور بے اطمینانی کا بیج پرورش پاچکا تھا۔ قصر نیاوران تو مجسم ثروت و سطوت و جاہ تھا لیکن میلوں دور کے دیہات میں محرومی، بے بسی اور بے صدائی ڈیرے ڈال چکی تھیں شاہ کی سیکرٹ سروس ساواک عوام کی زبان بندی یقینی بنانے کیلئے ظلم و ستم کی نئی داستانیں رقم کررہی تھی۔ اکتوبر 1977ء میں بالاخر آتش فشاں پھٹا۔ تبریز شہر تھا۔ گولی چلی اور کچھ اموات واقع ہوئیں۔ اس سے اگلے دن سارا ایران سراپا احتجاج ہوا۔ متعدد مقامات پر فوج سڑکوں پر آگئی۔ دسمبر 1978ء تک شہنشاہ آریا مہر کا ایران مفلوج ہوچکا تھا اور ہر دوسرے گھر کے سامنے میز رکھا ہوتا جس پر کسی نوجوان کی تصویر کا فریم ہوتا۔ شہنشاہ نے اس دوران ایک بار ٹی وی پر قوم سے التجا کی کہ وہ ملک کو نذر آتش نہ کرے اور شاہ سے مذاکرات کا راستہ اختیار کرے لیکن ایران کو آگ لگ چکی تھی۔ بالاخر 16 جنوری 1979ء کو شہنشاہ قصر نیاوران سے اپنے شاہی ہیلی کاپٹر کے پائلٹ بنے نکلے اور تہران کے نہر آباد ہوائی اڈے پر اترے۔ وہاں منتظر اپنے ہوائی جہاز میں پائلٹ کی نشست سنبھالی اور دارالحکومت دادا اور کوروش کبیر کی 2500 سالہ قدیم اپنی سلطنت سے پرواز کر گئے۔ صرف 3 ہفتے بعد شاہی بری فوج اور شاہ کے ذاتی محافظ دستے جاوداں نے عوام کے امنڈتے سیلاب کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ عظمت و سطوت، جاہ و حشم کے قصے تاریخ کا سیاہ باب بن گئے۔27 جنوری 1980ء کو جب 61 سالہ شہنشاہ جہاں محمد رضا شاہ کی بے کسی میں موت ہوئی تو اس کی دستگیری کرنے کیلئے صرف اہلیہ فرح پہلوی سرہانے تھی۔شہنشاہ نے سرڈیوڈ فراسٹ کو انٹرویو میں ان خارجی عوامل کا ذکر کیا ہے جو اس کے زوال کا باعث بنے۔ اس نے ان اندرونی عناصر کی بات نہیں کی جو ایرانی معاشرے کی شکست و ریخت کا سبب تھے۔ میں اس کا تفصیلاً ذکر کرتا ہوں۔ ولی عہد محمد رضا شاہ پہلوی کی پیدائش 26 اکتوبر 1919ء کو ہوئی۔ اس کی ولادت سے 5 گھنٹے بعد اس کی جڑواں بہن نے جنم لیا۔ اس کا نام اشرف پہلوی رکھا گیا۔ اشرف بچپن سے ہی اپنے بھائی پر حاوی رہی اور اس سے مشورہ کیے بغیر شہزادہ محمد رضا شاہ کوئی فیصلہ نہیں کرتا تھا وہ عملاً سیاہ و سفید کی مالک بن گئی۔ اس کی رضا مندی کے بغیر کوئی دربار شہنشاہی میں حاضری نہیں دے سکتا تھا چنانچہ بڑے بڑے تجارتی سودوں میں وہ اپنے بھائی کی حصہ دار ہوگئی۔ اس کے ساتھ ہی مونٹی کارلوکے جوا خانے اس کی قیام گاہ بن گئے۔ ایک ایک نشست میں کروڑوں ہار جاتی۔ شوق کا عالم یہ تھا کہ جس رنگ کا لباس سلواتی اسی رنگ کی مرسیڈیز گاڑی بھی اپنے قافلے میں شامل کرلیتی چنانچہ دہشتگردوں کے نشانے پر آگئی۔ اپنی ایک ہمشکل نوجوان لڑکی کو ہمیشہ سفر میں اپنے ہمراہ رکھتی تو ایک انتہائی ناخوشگوار واقعہ پیش آگیا۔ اکتوبر 1978ء کی کسی تاریخ کو مونٹی کارلو کے ایک جوا خانے سے نکلی۔ ہمشکل لڑکی کو اپنی نشست پر پیچھے بٹھادیا اور خود آگے جابیٹھی۔ دہشت گردی کا حملہ ہوا۔ ہمراہی لڑکی کی جان چلی گئی اشرف بچ گئی۔ ایران کے سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ شہنشاہ آریا مہر کی بہن نے نقصان بھائی کو پہنچایا۔ اس نے انجام کو بہت قریب کردیا۔ بھائی کے فرار سے پہلے اشرف بھاگ کر مونٹی کارلو میں جابسی لیکن تاریخ کبھی درگزر سے کام نہیں لیتی۔ 14 فروری 1979ء کو اس کا نوجوان بیٹا شہریار شفیق عین اپنی ماں کی رہائش کے سامنے قتل کردیا گیا۔ 7 جنوری 2016ء کو 96 سالہ اشرف پہلوی نے مونٹی کارلو میں آخری سانسیں لیں۔ تب مرتے لمحات میں اس نے اپنے سودوزیاں کا حساب کرتے ہوئے ضرور سوچا ہوگا کہ اس کے لچھن کیسے نہ صرف اس کے بھائی کو بلکہ کشور شہنشاہی ایران کو قبل ازوقت انجام تک پہنچانے میں کتنا قابل نفرت کردار ادا کرتے رہے تھے۔ مماثلتیں بھی کتنی بھیانک ہوجاتی ہیں۔ ایران کے مشرق میں ایک کشور حسین آباد ہے۔ یہ بھی عرصے سے ہمشیرگان کی زد پر ہے۔
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
 

شیئر:

متعلقہ خبریں