Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغان امن مذاکرات میں ہند کا کردار ہوگا؟

کراچی ( صلاح الدین حیدر) برسوں بعد پاکستان جس موقع اور مقام کی تلاش میں تھا وہ اسے بالاخر مل ہی گیا۔ پچھلے کئی برسوں سے اسلام آباد میں کوئی بھی حکومت ہو اس بات پر زور دیتی رہی تھی کہ پر امن افغانستان ہی پاکستان اور خطے میں امن کی ضمانت ہے مگر امریکہ اور اس کی شہ پر خود افغانستان کی حکومت بھی پاکستان کو افغانستان میں دہشتگردی کا مجرم گردانتی تھی۔ اللہ بھلا کرے نئے وزیراعظم عمران خان کہ انہوں نے ہمت اور جرا¿ت کا بے مثال مظاہرہ کرتے ہوئے امریکی صدر کی بے جا تنقید کو غلط قرار دیا کہ پاکستان 33 بلین ڈالر ہڑپ کرنے کے باوجود افغانستان میں امن کےلئے کچھ بھی نہیں کررہا۔ یہ عمران خان ہی تھے جنہوں نے امریکی صدر کی آنکھوں میں آنکھیں ملاکر ایسا کرارا جواب دیا اور کہا کہ پاکستان نے 33 ارب ڈالر نہیں 123 ارب ڈالر افغانستان کی جنگ میں جھونک دیئے ۔ اس سے کہیں زیادہ قیمت اس نے 75 ہزار انسانی جانوں کے نذرانہ کی صورت میں امن کی خاطر پیش کردیئے۔ اب بھی اگر اس سے یہ کہا جارہا ہے کہ اس نے کچھ نہیں کیا تو یہ بات پاکستان کو قطعی قبول نہیں۔ اس ہمت اور بہادری کا نتیجہ ہی تھا کہ خود امریکہ کے اندر پاکستان کی حمایت میں آوازیں اٹھیں۔صدر ٹرمپ نے ”ڈو مور“ کی جگہ عمران خان کو خط لکھ کر پچھلے 20 برسوں میں پہلی مرتبہ استدعاکی کہ امریکہ سے طالبان کو مذاکرات پر تیار کیا جائے۔ عمران نے اپنا کردار بخوبی اور بلا تاخیر انجام دیا جس کی وجہ سے دبئی میں امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات ہوئے اور ایک بار پھر امریکہ کی افغانستان کے لئے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد اور محکمہ خارجہ کی انڈر سیکرٹری اسلام آباد میں پاکستانیوں سے گفت و شنید میں پچھلے 2 دنوں سے مصروف عمل ہیں۔ ساتھ میں محکمہ خارجہ دوسرے اہلکار اور کابل میں امریکی فوج کے سربراہ جنرل مارٹن بھی اس بار اس بات چیت میں شامل ہیں۔ ڈرون حملے اور ڈو مور کی صدائیں اب بند ہوگئی ہیں۔ اب امریکہ ہماری حمایت کا طالب ہے۔ یہ پاکستان کے لئے اعزاز کی بات ہے۔ پاکستان نے جو کہ ہمیشہ سے ہی اپنے مغربی ملک میں امن کا خواہش مند رہتا ہے اس بات کا بھی اشارہ دے دیا کہ افغانستان میں امن مذاکرات میں ہند کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔ یہ سب کچھ پاکستان کی نئی خارجہ پالیسی کی کامیابی کا ثبوت ہے۔ اب پاکستان بھرپور طریقے سے جدوجہد میں مصروف ہے کہ کسی طرح امریکہ اور طالبان کے درمیان باقاعدہ اور بامعنی مذاکرات کا آغاز ہوجائے تاکہ پاکستان کو بھی اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے میں مدد ملے اور خطے میں دیرپا امن قائم ہو۔

شیئر: