Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایران کے خلاف پومپیو کا عرب اتحاد

عبدالرحمن الراشد ۔ الشرق الاوسط
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے مشرق وسطیٰ کا دورہ رکاوٹوں پر چھلانگ لگانے والے کھیل کے انداز میں کیا۔ وہ مختلف رکاوٹیں عبور کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ انکا ہدف ایران کے خلاف عرب اتحاد کا قیام تھا۔ اتحاد کے قیام کی راہ میں کر د، ترکی، شامی ، اسرائیل، عراقی ، سعودی ، قطری ، مختلف گروپ رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔ رکاوٹوں کی فہرست مکمل کئے بغیر ہی وہ مشرق وسطیٰ سے رخصت ہوگئے۔
ایران کی ناکہ بندی کس طرح ہو کہ مشرق وسطیٰ سے متعلق امریکی پالیسی کے لئے بنیاد کے پتھر کا درجہ رکھتا ہے۔ایران کو شام سے نکالنا ، عراق میں اسکا اثر و نفوذ کمزورکرنا، لبنان میں اسے چیلنج دینا ، اسرائیلی فضائیہ کو ایران پر دباﺅ کیلئے استعمال کرنا، ترکی کو ایران کیساتھ پینگیں بڑھانے سے روکنا، قطر کو ایران کے ساتھ دست تعاون دراز کرنے سے باز رکھنا اور سعودی عرب کو ایرانی پیٹرول کے بغیر دنیا کو تیل ضروریات پوری کرنے پر آمادہ کرنا پومپیو کے سامنے بڑی رکاوٹیں تھیں۔
امریکی وزیر خارجہ نے اپنے یہ فرائض انجام دینے کی سرتوڑ کوشش کی۔ حق اور سچ یہ ہے کہ انہیں تضادات اور اعتراضات کے باوجود خاصی کامیابی نصیب ہوئی۔ انہوں نے مشکل حالات میں بڑا ہدف حاصل کرلیا۔ اس سے تہران کے حکام ناراض ہوگئے۔ایرانی حکمرانوں کو اس بات سے اور زیادہ غصہ آیا کہ پومپیو نے آئندہ ماہ کے وسط میں پولینڈ میں عظیم کانفرنس منعقد کرنے کی دعوت دیدی جسکا مقصد ایران کے خلاف عظیم بین الاقوامی اتحاد کا قیام اور ایران پر 70سے زیادہ ممالک کے اشتراک سے دباﺅ ڈالنا ہے۔ ایرانی حکومت کو اعتماد ہے کہ امریکی کوششیں بالاخر ناکام ثابت ہونگی۔ایران کو یہ بھروسہ اس وجہ سے ہے کیونکہ امریکہ کے تقریباً تمام شرکاءنے ایران پر پابندیوں کی بحالی مہم میں شمولیت سے انکار کردیا ہے۔ ایرانی صدر حسن روحانی کو یقین ہے کہ امریکہ ایران کے خلاف کارروائی میں اکیلا اور الگ تھلگ پڑ گیا ہے۔
پومپیو کا مشن ایران کے خلاف اقدامات کے سلسلے میں بے نظیر کامیابی کے مرحلے کے قریب پہنچ رہا ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظرایران کی تشویش بڑھ گئی ہے۔ گزشتہ 2ماہ کے دوران یورپی ممالک نازک صورتحال سے دوچار ہوگئے ہیں۔ انہیں اس بات سے شرمندگی ہے کہ ایران نے یورپی ممالک میں 2اپوزیشن رہنماﺅں کو جو قتل کرایاتھا اس کی مزید تفصیلات منظر عام پر آنے لگی ہیں۔ اسی طرح یہ خبر بھی کہ ایرانی محکمہ خفیہ کے اہلکار فرانس میں ایرانی اپوزیشن رہنماﺅں پر حملے کی تیاریاں کررہے تھے۔ انکی مہم ناکام بنادی گئی۔ اگر یہ حملہ کامیاب ہوجاتا تو قتل عام کا ایک بڑا واقعہ فرانس میں منظر عام پر آتا۔ ایرانی نظام کے ساتھ یورپی ممالک کی صلح پسندی کامیاب نہیں ہوئی ۔ اسی طرح ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدہ برقرار رکھنے کیلئے برسلز اجلاس کے شرکاءنے جو جواز دیئے تھے وہ بھی کارگر ثابت نہیں ہوئے۔ ایرانی حکمرانوں نے ثابت کردیا کہ وہ پہلے جیسے تھے ،ا ب بھی ویسے ہی ہیں۔ وہ پوری دنیا کیلئے خطرناک بدی کی علامت تھے، اب بھی ہیں۔ سعودی عرب، بحرین، شام اور یمن کے عوام کےلئے ہی نہیں ، ایرانی پوری دنیا کیلئے بدی ہیں۔
مذکورہ تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ ایران سے نمٹنے کیلئے بین الاقوامی اتحاد کے قیام کےلئے پولینڈ میں منعقد کی جانے والی کانفرنس کی کامیابی کے امکانات کافی بڑھ گئے ہیں۔ یورپی ممالک میں پیش آنے والے تازہ واقعات، شام ، عراق اور یمن کی صورتحال نے بہت سارے یورپی رہنماﺅں کو اس بات کا قائل کردیا ہے کہ ایران کے خلاف اتحاد قائم کیا جانا چاہئے۔ ایران کا دفاع کرنے والوں کی تعداد گھٹ گئی ہے۔
امریکی وزیر خارجہ پومپیو کے سامنے چیلنج ہے کہ وہ ایران کے خلاف طاقتور اتحاد قائم کریں۔ جی سی سی میں شامل 6 کے 6ممالک اسکا حصہ ہوں۔ مصر اور اردن اس اتحاد میں شریک ہوں۔ خطے کا مسموم ماحول صاف ہوجائے۔ یہ انتہائی ناممکن ساچیلنج ہے۔ ہمیں ایسا ہی نظر آرہا ہے لہذا پومپیو کا فرض ہے کہ وہ اس حوالے سے سوچ کا انداز تبدیل کریں۔ دو طرفہ یا اجتماعی طرز تفکیر سے کام لیکر اس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کریں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: