Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فوجی عدالتوں میں توسیع ہونی چاہیے؟

کراچی ( صلاح الدین حیدر) نئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فوجی عدالتوں پر اپنا نکتہ نظر کیا ظاہر کیا کہ ملک میں بحث چھڑ گئی کہ عدالتوں ہونی چاہیے یا نہیں؟ چونکہ موضوع خصوصی اہمیت کا حامل ہے اس لئے اس پر کسی نتیجہ پر پہنچنے سے پہلے اس کا پس منظر اچھی طرح سمجھ لینا ہے کہ فوجی عدالتوں کی اہمیت کیا ہے؟
یہ عدالتیں کب اور کیسے وجود میں آئیں۔ ان کے مقاصد کیا تھے۔ ان کے فوائد کتنے ہوئے، کیا محض فوج کی بھرتی کے لئے قائم کی گئی تھیں یا واقعی ان سے ملک میں دہشتگردی کو ختم کرنے یا ان کی موجود گی سے ان واقعات میں کمی ہوئی یا نہیں؟ جاننا بہت اہم ہے۔ فوجی ترجمان نے کیا کہا، کیوں کہا، پیپلز پارٹی کیوں اس کی مخالفت پر اتر آئی ہے۔ن لیگ تحریک انصاف کی کیا رائے ہے۔ یہ تمام باتوں کا بے لاگ تجزیہ فوری طور پر کرلیا جائے تو بہتر ہوگا۔ فوجی عدالتوں کا قیام پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشتگردوں کے حملے کے بعد بنی جس میں 152 نونہال زندگی کی بہاریں دیکھنے سے پہلے ہی اللہ کو پیارے ہوگئے تھے۔ اسکول کی پرنسپل اور ایک استانی نے بھی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ یہ واقعہ 2014ءمیں پیش آیا۔ پاکستان ہی نہیں دنیا ہل گئی تھی۔ اس دلخراش سانحہ پر افواج پاکستان کے کہنے پر نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا جس کے تحت قومی اسمبلی سے قانون سازی کے ذریعے یہ عدالتیں 21 جنوری 2015ءکو معروض وجود میں آئیں۔ مقصد صاف تھا کہ چونکہ ہمارا عدالتی نظام گھسا پٹا ہے۔ ان میں فوجداری مقدمات کو حل کرنے میں برسوں لگ جاتے ہیں۔ اس ایسا عدالتی نظام تیار کیا جائے جہاں فوری فیصلے ہو سکیں۔ شروع میں تو یہ عدالتیں صرف 2 سال کے لیے بنائی گئی تھیں۔ آرمی ترجمان میجر جنرل آصف غفور کے مطابق ان عدالتوں میں 717 مقدمات پیش کیے گئے۔ 345 میں سزائے موت دی گئی ۔اب تک 56 دہشتگردوں کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا۔ اگر باقیوں کا فیصلہ نہیں ہوسکا تو وہ عدالت عظمیٰ میں اپیلوں کی وجہ سے رُکے ہیں۔مگر آصف غفور نے یہ بات زور دے کر کہی کہ فوجی عدالتیں فوج کی نہیں، ملک کی بہتری کےلئے ہیں اور ان کی بروقت کارروائی سے دہشتگردوں پر خوف طاری ہوا اور آج نسبتاً پہلے سے بہت زیادہ، تقریباً 90 فیصد دہشتگردوں کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ باقی ماندہ دہشتگرد اگر اِدھر اُدھر چھپے ہوئے ہیں اور کبھی کبھار حملہ آور ہوتے ہیں۔ چونکہ یہ خالص سول معاملہ ہے اس لئے صرف قومی اسمبلی ہی اس بارے میں فیصلہ کرسکتی ہے۔ آصف غفور کے بیان پر غور کیا جائے تو فوج کو شاید قلق لگتا ہے کہ اس کی ملک میں امن لانے کی کوشش کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں لیکن فوج سویلین برتری کےخلاف نہیں جانا چاہتی۔ وہ جمہوریت کی حفاظت کی علمبردار ہے۔ یہبات آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کئی بار دہرا چکے ہیں پیپلز پارٹی اگر اس کی مخالفت کر رہی ہے تو پس پردہ کوئی نہ کوئی بات تو ضرور ہے۔ آصف زرداری نے تو فوج کو عوامی جلسوں میں تنقید کا نشانہ بنایا۔ ظاہر ہے ایسے لوگ نہیں چاہتے کہ ان کی ناجائز طور پر کمائی ہوئی دولت پر اثر پڑے۔ ان کی چھان بین کی جائے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم یا نیب کے ذریعے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ انہیں اپنے اثاثے محفوظ کرنے میں مدد ملے تاکہ شاہانہ زندگی گزارنے میں کوئی رکاوٹ نہ آسکے۔
2 سال بعد 21 ویں ترمیم کے ذریعے ان عدالتوں کے قیام کی مدت میں مزید 2 سال کی توسیع کر دی گئی، جس کی مدت اس سال 20 جنوری کو ختم ہوجائے گی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دہشتگردی بالکل ہی ختم ہوگئی ہے۔ اگر ہوگئی ہے تو پھر بلوچستان میں ہزارہ قبائل کے لوگوں کا قتل عام کیوں ہوتا ہے۔ افغان بارڈر پر حملے کیوں ہوتے ہیں، ظاہر ہے کہ طالبان کے ساتھ اب داعش بھی مل گئی ہے اور ملک شام کے بعد پاکستان دہشتگردوں کے نشانے پر ہے۔ ان کا قلع قمع کرنا ملکی سلامتی کے لئے ضروری ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ان عدالتوں کی مخالفت نہیں کی۔ صرف اتنا ضرور کہا کہ ان کے فیصلوں کے خلاف اپیل کی اہمیت کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔ انصاف کا تقاضہ بھی یہی ہے لیکن جسٹس کھوسہ نے ایک بات اور بھی بہت اہم کہی ہے جس پر فوری غور کی ضرورت ہے۔ ان کے کہنے کے مطابق ایک میثاق حکمرانی (چارٹر آف گورننس) بنانا چاہیے جس میں تمام اہم اداروں، انتظامیہ، حکومت وقت، فوجی افسران اور دوسروں کی رائے شامل ہو تاکہ مستقبل میں کوئی ابہام نہ رہ جائے۔ تجویز بہترین ہے، سب مل کر اگر کوئی منصوبہ بنا لیں تو کئی اہم مسائل پر فوری توجہ دی جاسکتی ہے۔ اداروں کے درمیان تصادم یا ٹکراوبھی نہیں ہوگا۔ وزیراعظم کو چاہیے کہ اس معاملے پر تمام اداروں کے سربراہوں کا اجلاس بلاکر قومی مصالحت کی راہ اختیار کی جائے تاکہ آئندہ کوئی ابہام نہ رہ سکے۔ وقت کو ضائع کئے بغیر فوری حل تلاش کرنے کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

شیئر: