Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”سعودی ساختہ“ ہدف کس طرح حاصل ہو؟

سعد السبیعی ۔ مکہ
سعودی وژن 2030میں قومی صنعت پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔اس کے تحت نئے شعبوں کی سرپرستی اور انہیں کامیاب بنانے کی مہم چلائی جارہی ہے۔ کوشش یہ ہے کہ صنعتیں قومی معیشت کا نیا ستون بنیں۔ سعودی عرب تجدد پذیر توانائی اور صنعتی سازوسامان کی تیاری میں لگا ہوا ہے۔ اسکے خوشگوار اثرات نہ صرف یہ کہ فوجی اخراجات بچانے کی صورت میں برآمد ہونگے بلکہ مواصلات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں بھی کفایت شعاری اور خودکفالت کی راہ ہموار ہوگی ۔اس کی بدولت سعودی عرب میں مختلف قسم کے روزگار کے مواقع جنم لیں گے۔ سعودی عرب عسکری شعبے میں زیادہ خرچ کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔ عسکری صنعت کی بدولت کافی کچھ بچ سکے گا۔
سعودی عرب نے کم درجے کے پیچیدہ فاضل پرزوں، بکتر بند گاڑیوں اور گولہ بارود کی صنعتوں کو فروغ دینے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ رفتہ رفتہ اس شعبے کی بیشتر اشیاءسعودی عرب میں تیار ہونے لگیں گی۔ قومی صنعتوں کا دائرہ وسیع ہوگا۔ زیادہ پیچیدہ صنعتیں بھی اس کا حصہ بن جائیں گی۔ مثال کے طورپر فوجی طیارے ، معاون صنعتیں اور خدمات کا سلسلہ بھی یہیں انجام دیا جانے لگے گا۔ عسکری مصنوعات خطے کے ممالک کو برآمد کی جاسکیں گی۔ سعودی قیادت اس مقصد کیلئے براہ راست سرمایہ کاری کررہی ہے۔ اس شعبے کی قافلہ سالار کمپنیوں کیساتھ اسٹراٹیجک شراکت کے معاہدے ہورہے ہیں۔عسکری صنعت کافن اور ٹیکنالوجی مملکت منتقل کرنے نیز صنعت، اصلاح و مرمت اور ریسرچ کے شعبوں میں سعودی شہریوں کو تجربات حاصل کرنے کے مواقع مہیا کئے جارہے ہیں۔ علاوہ ازیں اسپیشلسٹ انڈسٹریل کمپلیکس قائم کئے جارہے ہیں۔ سعودیوں کو ان صنعتوں میں کام کرنے کا ہنر اور تجربہ دونوں فراہم کرنے کا اہتمام ہورہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ سعودی ساختہ کا ہدف کس طرح حاصل کیا جاسکتا ہے؟
صنعت کا شعبہ مملکت کا انتہائی اہم شعبہ ہے۔ یہ مملکت کے اقتصادی توازن میں موثر کلیدی کردار ادا کریگا۔سعودی صنعت کو فروغ دینے کیلئے نوکر شاہی اور اس کی بھول بھلیوں سے چھٹکارا حاصل کرنا پڑیگا۔ میں نے اپنی گفتگو کا آغازبھاری صنعتوں سے کیا۔ہمیں ایسا لگتا ہے کہ فی الوقت مملکت میں سعودیوں کے ہاتھوں پرزے جمع کرکے اشیاءتیار کرنے کا رجحان نافذ کیا گیاپھر کچھ عرصے بعد آلات اور انکے پرزے کی تیاری بھی شروع کردی گئی۔ ایشین ٹائیگرز نے بھی اسی طرح شروعات کی تھی۔ سوال یہ ہے کہ ہم جاپان کے نقش قدم پر کیسے چلیں۔ دوسری عالمی جنگ میں تباہی کے بعد جاپان نے گہرے کھڈسے ریاست کی تشکیل شروع کی تھی۔ قومی صنعت قائم کرنے کا طریقہ¿ کار تلاش کیا تھا۔ جاپان کے پاس نہ آمدنی کے ذرائع تھے اور نہ ہی ایسی معیشت تھی جس پر وہ انحصار کرسکیں۔ جاپان نے فیصلہ کیا کہ اپنے نوجوانوں کو امریکہ اور یورپی ممالک کے کارخانوں میں تجربہ حاصل کرنے کیلئے بھیجا جائے۔ کچھ عرصے بعد یہ نوجوان واپس ہوئے اور انہوںنے اپنے یہاں صنعتیں شروع کیں۔ کاش ہم بھی جاپان کی حکمت عملی اپناکر مضبوط قومی صنعت ٹھوس بنیادوںپر قائم کرنے کا اہتمام کریں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: