Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عرب ”مہاتما“

خالد القشطینی ۔ الشرق الاوسط
غرب اردن اور غزہ پٹی میں فلسطینیوں کو ان دنوں خطرہ درپیش ہے ۔ایسا وطن عزیزکی خاطر کشمکش کی طویل وعریض تاریخ میں پیش نہیں آیا تھا۔میری مراد ”صدی کے سودے“ سے ہے جس کا ذکر امریکی صدر نے کیا ہوا ہے۔ دنیا بھر کے لوگ صدی کے سودے کے معاملے میں ششدر و حیران ہیں۔ حالیہ ایام میں صدی کے سودے کے نقوش اور اثرات اجاگر ہونے لگے ہیں۔ صدی کے سودے کا بنیادی مقصد شدت پسند صہیونیوں کے اُس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنا ہے جس کا آغاز انہوں نے 1948ءکے دوران فلسطینیوں کے قتل عام کے سیریل سے کیا تھا۔ قتل عام کے واقعات میں” دیر یاسین“ کا المیہ سب سے نمایاں ہے جہاں قتل عام کرکے شد ت پسند صہیونی ہزاروں فلسطینیوں کو گھر سے بے گھر کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ وطن سے بیدخل کئے جانے والے اپنی جگہ اچھی خاصی تعداد میں تھے لیکن دیگر فلسطینی اپنی زمین سے جڑے رہے اور ”ثابت قدمی“ کے اصول سے چمٹے رہے۔ صہیونی مسلسل یہ خواب دیکھتے رہے، سوچتے رہے، منصوبہ بندی کرتے رہے کہ جو فلسطینی ارض فلسطین میں موجود ہیں ان سے کس طرح چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ یہ فلسطینی شدت پسند صہیونیوں کی آنکھ میں مسلسل کھٹک رہے ہیں۔ 
سوال یہ ہے کہ شدت پسند صہیونیوں کا یہ خواب کس طرح پورا ہو؟ موجودہ وقت میں دیر یاسین جیسے قتل عام کا المیہ دہرانا آسان نہیں۔ فی الوقت عالمی صورتحال اسے کسی قیمت پر قبول نہیں کریگی۔ فلسطینی مزاحمت کار آڑے آئیں گے لہذا شدت پسند صہیونیوں کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے کوئی ایسا فارمولا اپنانا ہوگا جو عالمی برادری کیلئے قابل قبول ہو۔ صہیونیوں نے اس تناظر میں دیکھا کہ امریکی قیادت ”صدی کے سودے“ فارمولے کو رائج کرسکتی ہے اور عالمی برادری کیلئے قابل قبول بناسکتی ہے۔ اس کےلئے ضروری ہوگا کہ فلسطینیوں کو ایسے عرب علاقوں میں بسا دیا جائے جو انہیں اپنے یہاںبسانے پر آمادہ ہوجائیں۔ اسکے لئے صہیونیوں کو اربوں ڈالر خرچ کرنا پڑیںگے۔ یہ امریکہ کیلئے کوئی مسئلہ نہیں۔
اس حکمت عملی پر عمل درآمد کی پہلی کوشش ہمیں اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نتنیا ہو کے بعض ممالک کے دوروں کی شکل میں دیکھنے کو ملی۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ نتنیاہو کو اس سلسلے میں حوصلہ افزا جواب نہیں ملے ۔ یہ لمبا سفر ہے۔ اسکی کامیابی کا دارو مدار فلسطینیوں کے موقف پر ہے۔فلسطینی ہتھیار اٹھائیں یہ ایک حل ہے مگر یہ بدترین حل ہے۔ بہتر ہوگا کہ فلسطینیوں کوبیدخلی پر آمادہ کرنے کی کوشش کے بجائے خود اسرائیلی عوام کو فلسطینیوں کے ساتھ پرامن بقائے باہم کا اصول قبول کرنے پر آمادہ کیا جائے۔یہ فارمولا اسی صورت میں موثر ثابت ہوگا جب فلسطینی سنگ باری اور چاقو چھری کا استعمال بند کریں۔ محبت ، مودت سے پیش آئیں۔ اسرائیلیوں سے تعاون کریں۔ اسرائیلیوں پر گلپاشی کریں۔ مہاتما گاندھی کے نعرے ”اپنے دشمن سے پیار کرو“ کو اپنائیں۔
یہ کانٹوں بھرا راستہ ہے البتہ صدی کے سودے کی یلغار سے قبل فلسطینیوں کے ساتھ باقی ماندہ واحد حل یہی رہ گیا ہے۔ اسکے لئے انہیں اپنی سوچ کو 180کی ڈگری سے تبدیل کرنا ہوگا۔ اسے فلسطینیوں میں مقبول بنانے کیلئے” عرب مہاتما“کی ضرورت ہوگی۔ ایسے رہنما کی خدمات درکار ہونگی جو انسانیت، محبت ، امن اور پرامن بقائے باہم کے جذبے سے پوری طرح سرشار ہو۔ افہام و تفہیم اور اخوت کا نیا سانچہ فلسطینیوں کے سامنے پیش کرے۔ایسی سحر آفریں شخصیت ہو کہ فلسطینیوں کے دلوں اور دماغوں پر چھا جائے۔ سب لوگوں کو اپنے اردگرد جمع کرلے۔
نتنیا ہو اور انکے ٹولے امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے اسرائیل کا دارالحکومت القدس کو بنادیا ہے۔ انکا کہناہے کہ یہی ریاست کا دارالحکومت ہے۔ انہوں نے اسرائیلی ریاست کا دائرہ اس قدر وسیع و عریض کردیا ہے کہ اس میںتمام فلسطینی علاقے شامل ہوگئے ہیں گویا فلسطینی اور اسرائیلی 2ریاستیں ایک ریاست میں جمع ہوگئی ہیں۔ ایسا ہوجائے کہ 2صدیوں تک بہت سارے انسانیت نواز اور مثالی تصور رکھنے والی شخصیتوں نے اس قسم کے جذباتی خواب دیکھے ہیں۔ ہمیں انکی تعلیمات اور انکے نظریات کی یادوں کا احیاءنیا زمینی منظرنامہ تخلیق کرکے پیش کرنا ہوگا۔ نیا منظر نامہ راستوں کو روشن کردے ۔ نئے حقیقی سودے کی راہ ہموار کردے۔ ماضی کی تلخیوں کو بھلا دے۔ دلوں کو سب کے مشترکہ دستر خوان پر جمع کردے۔ اس کے بغیر فلسطینی ، طاقت یامروت کے نام پر نئی بربادی کے حالات سے دوچار ہونگے۔ انہیں تتر بتر کردیا جائیگا۔ انکی زندگی درد، نفرت، انتقام اور بربادی کی علامت بن جائیگی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: