Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جدہ:اردو اکیڈمی کا 18 واں یوم قومی تعلیم بیاد بھارت رتن مولانا ابوالکلام آزاد

امین انصاری۔جدہ
    اردو اکیڈمی جدہ کے ذمہ داروں نے کئی دہائیوں قبل اردو کی شمع روشن کی جس کی لو نے اپنی ضیا پاشیوں کا دائرہ اتنا وسیع کیا کہ وہ اہل اردو کی نہ صرف پہچان بن گئی بلکہ اس نے ہر عام و خاص کی زبان اور دل پر اپنے گہرے نقوش چھوڑدیئے ۔اردو کی آبیاری اور اس کی ترویج کیلئے سر میں سودا لئے جدہ کے بابائے اردو سلیم فاروقی نے اردو کے علمبردار سید جمال اللہ قادری کی رہنمائی میں اکیڈمی کی بنیاد ڈالی ۔اہل اردو اکیڈمی سے منسلک ہوتے گئے اورجدہ نیز وطن عزیز حیدرآباد دکن میں اردو کے فروغ کیلئے کام ہونے لگا۔اس حوالے سے یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ:
اک بزم سجائی تھی جو عشاقِ زباں نے
بخشی ہے پذیرائی اسے سارے جہاںنے
    اردو اکیڈمی نے طلباءکی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کا بیڑا اٹھایا چنانچہ اردو میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے طلباءکو میڈل ، شیلڈز اور توصیفی اسناد دی جانے لگیں ۔ بعد ازاں اکیڈمی نے اردو مدارس کا ڈیٹا تیار کیا اور اردو مدارس کی زبوں حالی کو دیکھتے ہوئے طلباءمیں یونیفارم ، کتابیں ، بیگ اور اسکولی اشیاءمفت تقسیم کرنے کا بیڑہ اٹھایا ۔ وطن عزیز سے جب بھی اردو کے قلمکار، ادیب اور شعراءجدہ آئے ،ان کے اعزاز میں تقاریب کا انعقاد اور ان کے خیالات سے عوام الناس کو آگہی کے مواقع فراہم کئے جانے لگے ۔
     اردو اکیڈمی جدہ نے ماضی میں ہندوستان کے کابینی وزیر ارجن سنگھ کی جدہ آمد پر ان سے نمائندگی کرتے ہوئے آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم بھارت رتن مولانا ابوالکلام آزادکے یوم پیدائش پر تعطیل عام کی اپیل کی جس کی ارجن سنگھ نے بھر پور نمائندگی کرتے ہوئے پورے ہندوستان میں چھٹی رائج کروائی ۔ ساتھ ہی جدہ میں مولانا ابوالکلام آزاد ڈے مناتے ہوئے طلباءو طالبات میں تعلیمی ، سماجی اور اخلاقی اداوار کو اجاگر کرنے کیلئے اردو اور انگریزی میں تقریری مقابلوں کا اہتمام کروایا ۔ نیز ادب سے نسل نو کو واقف کروانے کے لئے تمثیلی مشاعرے کی بنیاد ڈالی گئی ۔ اولیائے طلباء، عوام النسا اور مدارس کے طلباءو طالبات ہر سال اردو کیڈمی کے سالانہ جلسہ مولانا ابوالکلام آزاد کا بے چینی سے انتظار کرتے ہیں۔
    جدہ کے ہندوستانی قونصلیٹ کا وسیع و عریض حال اپنی تنگ دامانی پر شکوہ کناں نظر آیا کیونکہ یہاں اردو اکیڈمی ،جدہ اپنا 18 واں یوم قومی تعلیم بیاد مولانا ابوالکلام آزاد منعقد کر بیٹھی تھی۔ کارگزار صدر شیخ ابراہیم اس کی صدارت کر رہے تھے ۔
     ڈپٹی قونصل جنرل ہندشاہد عالم کی بحیثیت مہمان خصوصی موجودگی میں 4 بجے شام سے شروع ہونےو الے پروگرام میں لوگ3 بجے سے ہی جوق درجوق قونصلیٹ پہنچنا شروع ہو گئے تھے ۔ قونصلیٹ کے میدان کا منظردیدنی تھاجہاں ڈھونڈنے پر بھی کوئی گوشہ تنہائی میسر نہیں آ رہا تھا۔ ایک جانب طلباءٹولیوں کی شکل میں ایک دوسرے کی تقاریر سن رہے تھے تو دوسری جانب طلباءو طالبات شعراءکے کلام کو شاعرانہ پیرہن اورسخن گسترانہ پھبن میںسامعین کے گوش گزار کرنے کی تیاری کر رہے تھے۔ اسی دوران گھڑیال نے 4بجنے کی منادی کی اور فوراً ہی مائیک سے ایک انتہائی شائستہ اور نستعلیقی صدافضاﺅں میں مترشح ہوئی ۔ اس دبنگ آواز نے سبھی شرکاءکو اپنی جانب متوجہ کرلیا ۔ شرکاءکی نظر اسٹیج پرپہنچی تودیکھا کہ جدہ کے معروف ناظم و کنوینر جلسہ محمد فہیم مائیک سنبھالے ہوئے مخاطب تھے ۔ یوں مدعا تو سب ہی بیان کر لیتے ہیں لیکن محمد فہیم کا انداز بیان اتنا دلکش ہوتا ہے کہ لوگ انکے لفظوں کی بندش ، زبان کی مٹھاس ، انداز بیان اور اشعار کی برجستہ اور بروقت ادائیگی پر عش عش کر اٹھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ موصوف نے چند کلمات کے بعد حافظ عبداللہ عبدالمتین عثمانی کو تلاوت کلام پاک کے لئے اسٹیج پر آنے کی دعوت دی ۔حافظ سید عاقب حسینی نے نعت طیبہ پیش کی ۔
اسے بھی پڑھئے:”ایسا شکستہ حال غزل خواں نہ آئے گا
     بیکل اتساہی کی شہرہ آفاق غزل "تاج محل " مجتبیٰ علی مصری نے سنائی اور شرکائے محفل کو دم بخود کردیا ۔ ناظم نے مہمان خصوصی ڈپٹی قونصل جنرل و قونصل حج شاہد عالم اور انکی اہلیہ کا اردو اکیڈمی کی جانب سے استقبال کیا جبکہ مہمان اعزازی قونصلر آنند کمار ،معروف شاعر حلیم بابر ، پروفیسر معاشیات ریاض علی خان کا بھی مختصر تعارف کرواتے ہوئے ان کا استقبال کیا ۔ اپنی خوبصورت نظامت کو کنوینر نے یہ کہتے ہوئے انگریزی تقریری مقابلے کے ناظم یوسف توصیف خان کے حوالے مائیک کیا کہ:
" نئے چراغ جلاو¿ کے روشنی کم ہے "
    توصیف علی خان نے اپن منفرد انداز میں انگریزی تقریری مقابلوں کا آغاز کیا ۔انہوں نے بتایا کہ مقابلے کئی ہفتوں سے منعقد ہورہے تھے جس میں بے شمار طلباءاو رطالبات نے حصہ لیا ۔انہوں نے طلباءاور طالبات کو تقریر کے لئے دعوت دی ۔دونوں نے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ فائنل میں طالبات میں پہلی پوزیشن بشریٰ کریم صدیقی ،دوسری پوزیشن صفورا کلثوم ، تیسری پوزیشن ابیر اشرف اور چوتھی پوزیشن شاہینہ بانو نے حاصل کی ۔ اسی طرح انگلش میں تقریر کرنے والے لڑکوں میں پہلی پوزیشن شیزان عبدالمجیر چشتی ، دوسری پوزیشن عبدالرحمن غصید ، تیسری پوزیشن ہاشم محمد سراج اور چوتھی پوزیشن ایمن صدیقی نے حاصل کی ۔
    اردوکے تقریری مقابلوں کو سننے کیلئے لوگوں کا اشتیاق انتہا درجہ کو پہنچا ہوتھا ۔ کنوینر و ناظم محمد فہیم نے اردو تقریری مقابلوں کے ناظم محمد لیاقت علی خان کویہ کہتے ہوئے مائیک حوالے کیا کہ جس طرح شخصیت کی پہچان لیاقت دیکھ کر کی جاتی ہے اسی طرح اردو تقریری مقابلوں کی تیاری لیاقت علی خان صاحب کی گرجدار اور انتہائی مرصع نظامت کی لیاقت دیکھ کر کی جاسکتی ہے۔ اردو تقاریر کے مقابلوں کے ناظم لیاقت علی خان نے کہا کہ ”اب جگر تھام کے بیٹھو ، مری باری آئی“۔ انہوں نے بہت خوب ، برجستہ اوربر موقع اشعار کااستعمال کرتے ہوئے اپنی نظامت سے عوام کو نہ صرف اپنی جانب متوجہ کیا بلکہ ان کے دلوں میں اشعار کا ذخیرہ چھوڑ گئے ۔
    مقابلوں کا آغاز ہوا، لڑکے اور لڑکیوں نے اپنی شعلہ بیانی اور زور بیان سے قونصلیٹ کے درو دیوار کو ہلاکر رکھ دیا ۔سامعین تو سامعین والدین بھی حیران تھے کہ ہمارے بچوں میں یہ ٹیلنٹ کہاں سے آگیا ۔اسی دوران ناظم نے کہا کہ” یہ اردو ہے جو سر چڑھ کر بولتی ہے ۔“
     تقریری مقابلوںمیں پہلی پوزیشن فرح فیاض دیش مکھ ، دوسری پوزیشن ثمرہ شکیل ، تیسری پوزیشن سمرن اکبر علی اور چوتھی پوزیشن شاہ زین فاطمہ نے حاصل کی جبکہ لڑکوں میں پہلی پوزیشن شہیر انصاری ، دوسری پوزیشن مصطفی سید وقار الدین ،تیسری پوزیشن سید ابرار اور چوتھی پوزیشن عبداللہ حنیف نے حاصل کرکے اردو سے اپنی والہانہ محبت کا ثبوت دیا ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اردو اکیڈمی نے ہر طالب کیلئے علیحدہ علیحدہ عنوانات دیئے تھے جس کو سامعین نے بہت پسند کیا ۔
    اب انتظار تھا اردو کے ان علمبرداروں کی تمثیل کا جن کے دم سے اردو زندہ اور پائندہ ہے یعنی شعرائے کرام ۔ تمثیلی مشاعرے کی نظامت جدہ کے ایک اور بہت ہی معروف اور ابھرتے ہوئے سخن فہم نے کی جن کے لب جب گویا ہوتے ہیں تومحسوس ہوتا ہے کہ اردو کے بام و در کھلتے جا رہے ہیں ۔ وہ معروف شخصیت اسلم افغانی کی تھی ۔ انہوں نے مائیک سنبھالا اورتحدیدِ وقت کو مدنظر رکھتے ہوئے دریا کو کوزے میں سمیٹنے لگے۔ انہوں نے انتہائی مہارت کے ساتھ اشعار کا سہارا لیتے ہوئے مشاعرے کی تمہید باندھی اورشعرائے عظام کو شہ نشین پر آنے کی دعوت دی ۔انہوں نے کلام پیش کیا تو شرکائے محفل نے خوب داد سے نواز ا۔
    مدیحہ ناز نے ڈاکٹر نسیم نکہت کی تمثیل پیش کرکے پہلی پوزیشن حاصل کی ۔رند فاطمہ نے لتا حیا کی تمثیل پیش کرکے دوسری ، سیدہ اقراءنے ڈاکٹر نزہت انجم کی تمثیل پیش کرکے تیسری اور اسما بانو نے لتا حیا کی تمثیل پیش کرکے چوتھی پوزیشن حاصل کی ۔ اسی طرح لڑکوں میں بسواس سی نائیک نے منظر بھوپالی کی تمثیل پیش کرکے پہلی ،عبدالصمد سلیم نے ڈاکٹر راحت اندوری کی تمثیل پیش کرکے دوسری، مرزا سلمان بیگ نے خواہ مخواہ حیدرآبادی کی تمثیل پیش کرکے تیسری اور اشرف باری نے منظر بھوپالی کی تمثیل پیش کرے چوتھی پوزیشن حاصل کی ۔
    مہمان خصوصی ڈپٹی قونصل جنرل شاہد عالم نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اکیڈمی کے اس تعلیمی پروگرام کا مجھے پورے سال انتظار رہتا ہے ۔جدہ کے بے شمار پروگراموں میں شرکت کرنے کا موقع ملتا ہے لیکن یہ پروگرام قوم کے معماروں کی آبیاری کیلئے نہ صرف بہتر ہے بلکہ درخشاں مستقبل کا عکاس ہے ۔ بچوں کی تقاریراور تمثیلی مشاعرہ دیکھنے اور سننے کے بعد دل باغ باغ ہوجاتاہے ۔ انہوں نے اس موقع پر شاعری سے اپنی انسیت کا اظہار کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ وہ بچپن سے شاعری کے دلدادہ ہیں اور خود بھی کلام کہتے ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے اپنا کلام بھی سنایا اورسامعین کو دم بخود کردیا ۔ اردو کے اس پروگرام کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قونصلیٹ اس طرح کے پروگرام میں اپنا بھرپور تعاون دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گی ۔ اس موقع پرشاہد عالم نے اکیڈمی کے 17ویں سوینیئر کا افتتاح کیا۔سوینیئر انتہائی معلوماتی مضامین اور سرکردہ شخصیات کے پیغامات سے مزین ہے ۔
    صدر اکیڈمی سید جمال اللہ قادری کی ریکارڈشدہ تقریر بھی پروگرام میں سنائی گئی۔ کارگزار صدر شیخ ابراہیم نے اکیڈمی کی کارکردگی پر تفصیلی روشنی ڈالی ۔جنرل سیکریٹری سلیم فاروقی نے جلسے کی کامیابی پر شکربجالاتے ہوئے تمام طلباءو طالبات ،حاضرین اور قونصلیٹ کے ذمہ داران اور میڈیا کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کیا ۔
    تمام مقابلوں کے چیف جج ٹوسٹ ماسٹر محمد عبدالسمیع تھے جبکہ معاون کے فرائض ٹوسٹ ماسٹر سید ناصر خورشید نے انجام دیئے ۔اردو اور انگریزی تقاریر کے مقابلوںکے ججز میں ٹوسٹ ماسٹر ارمینا قیصر ، ڈاکٹر شاہدہ عزیز خان،ٹوسٹ ماسٹرسریندر پال سنگھ،پروفیسر شیخ فردوس، ٹوسٹ ماسٹرخلیل احمد شامل تھے جبکہ تمثیلی مشاعرے کے جج صاحبان میں شاعر ساحل تما پوری(نام منور پاشاہ)، شاعر بیلن نظام آبادی(نام محمد اقبال)، شاعر الطاف شہر یار، شاعر حلیم بابر(نام سید نعیم الدین)، شاعر ابو الحسن سید، وحید القادری عارف شامل تھے۔ مقابلوں میں حصہ لینے والوں کی تقاریر کے وقت کی دیکھ بھال کی ذمہ داری مجید احمد ، ارشد، شعیب الدین ، اور صادق حسین نے انجام دی ۔ ایونٹ منیجر کے فرائض ٹوسٹ ماسٹر محمد عبدالستار خان امجد نے انجام دیئے جبکہ سید خالد حسین مدنی نے کلمات تشکر ادا کئے ۔جلسے کے انعقاد میں اکیڈمی کے ذمہ داران و معانین حافظ محمد عبدالسلام ( خازن اردو اکیڈمی )سمیع احمد فاروقی ، منور خان ، یوسف وحید ، سید نسیم الدین اور ارشد سرفہرست تھے ۔
 

شیئر: