Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سانحہ ساہیوال:تحریکِ انصاف کا امتحان

تنویر انجم٭٭٭***
ہفتے کے روز پنجاب کے شہر ساہیوال میں پیش آنے والا واقعہ ہر صاحب دل کیلئے کسی قیامت صغریٰ سے کم نہیں۔ پولیس کے محکمہ انسداد دہشتگردی (سی ٹی ڈی) کے اہل کاروں نے شادی کی تقریب میں شرکت کیلئے جانیوالے خاندان کی خوشیاں اور زندگی اجاڑ دی۔ سانحہ بیان کرتے ہوئے ہاتھ، زبان اور قلم ساتھ دینے سے گریزاں ہیں۔ عوام کے نام نہاد محافظ ہونے کے دعویداروں نے اپنی گاڑی سے ٹکر مار کر پہلے کار کو روکا اوراندھا دھند فائرنگ شروع کردی، جس کے نتیجے میں ماں، بیٹی اور شوہر سمیت 4 افراد جاں بحق ہو گئے۔
واقعے کے فوری بعد سی ٹی ڈی کی جانب سے گھڑی گئی کہانی میڈیا پر آ چکی ہے، جس کے مطابق پہلے مارے گئے افراد کو اغوا کار ظاہر کیا گیا، بات نہیں بنی اور کچھ دیگر شہادتیں سامنے آئیں تو داعش کے دہشت گرد اور پرانے مقدمات میں ملوث قرار دے دیا گیا، اس کے بعد کچھ مزید ثبوت اور وڈیوز سامنے آئے تو کہانی کو پھر سے نیا رنگ دیا گیا۔ میڈیا نے بات اچھالی، عوام کا دباؤ بڑھا اور سیاست دانوں کی جانب سے تنقید سامنے آئی تو حکمراں جماعت کے کچھ رہنماؤں نے بھی بیانات داغے، تاہم اس سے پہلے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار جن کی سادگی اور عوام دوست ہونے کی مثالیں دینے سے وزیر اعظم تھکتے نہیں، نہ صرف خاموش تھے بلکہ صحافیوں کی جانب سے کیے گئے سوالات پر بھی ٹال مٹول کرتے رہے۔ بعد ازاں دباؤ شدید ہوا اور وزیرا عظم نے نوٹس لیا تو وزیر اعلیٰ کو بھی معاملے کی نزاکت کا احساس ہوا اور انہوں نے فوری رپورٹ طلب کرتے ہوئے احکامات جاری کیے اور رات گئے تک ملوث اہل کاروں کو حراست میں لیے جانے کی خبریں بھی میڈیا پر آ گئیں۔ 
سی ٹی ڈی نے کارروائی سے متعلق بیان دیا کہ کار میں موجود لوگ اور ان کے ساتھ موٹر سائیکل سوار، سبھی دہشت گرد تھے اور اسلحہ و خود کش جیکٹ لے کر جا رہے تھے جو کہ کارروائی کے بعد برآمد ہوئی تاہم اس موقع پر موجود عینی شاہدین اور موبائل فون کے ذریعے بنائی گئی وڈیوز کے ذریعے سامنے آنے والے حقائق سے پتا چلتا ہے کہ مارے گئے افراد دہشت گردتھے یا نہیں تھے، تاہم اہل کاروں نے ضرور کھلی دہشت گردی کا مظاہرہ کیا۔ عینی شاہدین نے ہمت کر کے میڈیا کو بتایا کہ کار میں موجود افراد کی جانب سے کوئی مزاحمت نہیں کی گئی اور کارروائی بالکل دو ٹوک یکطرفہ نظر آئی جبکہ بعد ازاں بچے کے سامنے آنے والے بیان سے بھی بات واضح ہو گئی جس نے کہا کہ پولیس والوں نے ہمیں روکا اور فائرنگ کردی، بچے نے بتایا کہ میرے والد نے ان کی منتیں کیں کہ پیسے لے لو، مگر ہمیں چھوڑ دو، گولی مت مارو مگر انہوں نے ایک نہیں سنی اور اندھا دھند فائرنگ کرکے سب کو مار دیا۔
واقعے سے متعلق مزید حقائق میڈیا پر سامنے آ ہی چکے ہیں، اس حوالے سے وزیرا عظم عمران خان نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں تاحال صدمے کی کیفیت میں ہوں اور پریشان ہوں۔  بچوں کی آنکھوں کے سامنے ان کے والدین کو گولیاں ماری گئیں، معجزانہ طور پر بچ جانے والے (کیونکہ سی ٹی ڈی اہل کاروں نے تمام کو مارنے کی کوشش میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی) 3معصوم بچوں سے متعلق وزیراعظم نے اپنے ٹویٹر بیان میں کہا کہ ان تمام کی ذمے داری ریاست اٹھائے گی۔ شہریوں کی حفاظت حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے ۔واقعے کی جے آئی ٹی رپورٹ سامنے آنے پر فوری کارروائی کی جائے گی۔ اسی دوران اپوزیشن رہنماؤں سمیت ملک بھر کی تمام جماعتوں کی جانب سے بھی واقعے کے بعد سی ٹی ڈی کی مشتبہ کارروائی پر شدید تنقید جاری ہے اور معاملے سے متعلق حقائق سامنے لا کر ملزمان کو کڑی سے کڑی سزا دینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
جعلی مقابلے ہونا پاکستان میں آج کی بات نہیں، برسوں سے ایسے مقابلے ہوتے آئے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے نہتے افراد کو غائب کرنے کے علاوہ قتل کرتے رہے ہیں جس کی مثالیں زبان زد عام ہیں۔ کراچی میں راؤ انوار اس کی بدترین مثال کے طور پر سامنے ہے۔ ایسے میں عدلیہ کے نظام پر سوالات اٹھتے ہیں کہ ملک میں اگر انصاف دستیاب ہوتا تو شاید ایسے واقعات رک جاتے۔ راؤ انوار کا کیس سپریم کورٹ بھی آیا، اس کے بعد روپوشی کے بعد ملزم سامنے بھی آ گیا اور حسب توقع ضمانت بھی مل گئی اور وی آئی پی پروٹوکول کے ساتھ ایسا شخص جس پر مبینہ پولیس مقابلوں کے ذریعے نہتے افراد کو قتل کرنے کے درجنوں الزامات بھی ہوں، کھلے عام آتا جاتا بھی ہے۔ عوام کو توقع تھی کہ ماضی میں ہونے والے ایسے واقعات پر اگر ٹرائل درست سمت میں جاتا اور ملزمان خواہ ان کا تعلق قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ہو یا دہشت گردوں سے، انہیں سولی پر لٹکا دیا جاتا تو شاید ایسے واقعات رک جاتے مگر افسوس کہ ایسا ہوتا بظاہر نظر نہیں آ رہا۔
اس وقت پوری قوم کو تحریک ’انصاف‘ کی حکومت کے کپتان عمران خان سے امیدیں وابستہ ہیں کہ وہ واقعے پر سخت ایکشن لیتے ہوئے معاملے کی درست سمت میں تحقیقات کروائیں اور اس کے نتیجے میں مجرم قرار پانے والے افراد کو سزا دلوائیں۔ ساہیوال میں پیش آنے والا واقعہ حکومت اور عدلیہ کے نئے منصف اعلیٰ کیلئے ایک امتحان ثابت ہوگا۔ ایک بات تو طے ہے کہ جرائم کو جرائم اور ظلم کو ظلم کے ذریعے سے روکا نہیں جا سکتا۔اگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کاروں نے دہشت گردوں کو اس طرح مبینہ جعلی مقابلوں کے ذریعے ہی مارنا ہے اور مارنے کے بعد کہانیاں ہی گھڑنی ہیں تو پھر قانون کی کتابیں کس کام کی؟ یاد رکھیں کہ جو لوگ بھی سرکاری اسلحہ کا شکار ہوئے ہیں، ان کا خون، والدین، عزیز و اقارب اور بچوں کی بددعائیں کبھی رائیگاں نہیں جائیں گے۔ آپ کا امتحان شروع ہو چکا ہے، اللہ آپ کو سرخرو کرے۔
 

شیئر: