Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بیروت اقتصادی عرب سربراہ کانفرنس

سعودی عرب سے شائع ہونے والے اخبار ” الریاض“ کا اداریہ نذرقارئین ہے
وسیع تر مفہوم میں حقیقی ترقی محفوظ سیاسی ، سماجی ماحول میں ہوتی ہے۔ اگر ملک میں امن و امان ، استحکام اور اعتماد کا ماحول نہ ہو تو ایسی صورت میں مضبوط معیشت کی تخلیق ممکن نہیں۔ علاقائی یا غیر ملکی سرمایہ کار آپ کے یہاں نہیںآئیں گے۔
لبنان کے بعض سیاستدانوں نے عرب معیشت کے منظر نامے کو اندرون ملک تفرقہ و تقسیم کے تناظر کے ساتھ نمٹنے کی کوشش کی۔ چوتھی اقتصادی عرب سربراہ کانفرنس سے قبل ، اس کے دوران اور اسکے بعد بھی وہ اسی قسم کا راگ الاپتے رہے۔ لبنان کا ایک سیاسی دھارا غیر ملکی طاقت کے احکام پر پوری قوت کے ساتھ یہ کوشش کرتا رہا کہ بیرو ت میں اقتصاد ی عرب سربراہ کانفرنس منعقد ہی نہ ہو۔ جب اس دھارے کا مطالبہ پورا نہ ہوا تو اس نے اپنی سابقہ روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے پیرو کاروں کو سڑکوں پر اتار دیا۔ مظاہرین نے لیبیا کا پرچم اتار کر نذر آتش کردیا۔ دعویٰ یہ کیا گیاکہ لیبیا کی حکومت امام موسیٰ الصدر کی روپوشی کی گتھی کو سلجھانے کے سلسلے میں تعاون نہیں کررہی۔ یہ سب کچھ اس کے باوجود کیا گیا جبکہ لیبیا کی موجودہ حکومت کا الصدر کی روپوشی سے دور پرے تک کا کوئی رشتہ ناتہ نہیں۔ الصدر 2002ءکے دوران بیروت عرب سربراہ کانفرنس کے دوران قذافی کے عہد میں روپوش ہوئے تھے اور 2002ءمیں بیروت عرب سربراہ کانفرنس میں اہل لبنان نے قذافی کا استقبال کیا تھا۔ لبنان کے وزیر خارجہ جبران باسیل اقتصادی سربراہ کانفرنس کو سیاسی کانفرنس میں تبدیل کرنے کی ضد پر اڑے رہے۔ انکا کہناتھا کہ شام کو کانفرنس میں شریک کیا جائے۔
یہ درست ہے کہ لبنان عرب صف میں دوبار ہ شامل ہوگیا ہے اور عرب سربراہ کانفرنس کے انعقاد کے مخالف ایران نوازوں کو چیلنج دینے میں کامیاب رہا تاہم بیشتر عرب قائدین کانفرنس میں شریک نہیں ہوئے۔ کانفرنس میں نمائندگی کی سطح ہلکی رکھی گئی۔ 
سواال یہی ہے کہ ایسے عالم میں جبکہ سرمایہ کاروں کو ویزے ایئرپورٹ پر دیئے جاتے ہوں اور اس پر مخصوص پارٹیوں کا کنٹرول ہو ایسی حالت میں عرب سرمایہ کار لبنان کیونکر جائیں گے۔ لبنانی سیاستدانوں کو ماضی سے سبق سیکھنا چاہئے۔ انہیں یہ بات اچھی طرح سے معلوم ہونا چاہئے کہ خلیجی ممالک کیساتھ اقتصادی تعاون کیلئے انہیں واضح سیاسی موقف اپنانا ہوگا۔ لبنان بیحد اہم ہے لیکن اقتصادی نظام داخلی سیاسی جھگڑوں کو طے نہیں کرسکتا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: