Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہند میں وزارت عظمیٰ کےلئے رسہ کشی

***سید اجمل حسین ۔ دہلی***
ابھی گاؤں بسا نہیں لٹیرے پہلے آگئے کے مصداق ابھی حزب اختلاف کا نہ عظیم اتحاد ہوا ہے اور نہ پارلیمانی انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہوا ہے لیکن وزارت عظمیٰ کے امیدوار کے طور پر پیش کیے جانے کیلئے ابھی سے رسہ کشی شروع ہو گئی ہے۔ ہر پارٹی کے سربراہ کی یہی خواہش ہے کہ اسے عظیم اتحاد کے وزیر اعظم کے عہدے کے امیدوار کے طور پر پیش کیا جائے۔ امیدواری کے متمنی تمام لیڈر اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ان کی اہمیت و مقبولیت صرف اپنی ریاست تک ہی محدود ہے۔ریاست سے باہر وہ اپنی پارٹی کو بر سر اقتدار لانا تو دور کی بات  پارٹی کے اتنے امیدواروںکی جیت بھی یقینی نہیں بنا سکتے جس سے وہ بادشاہ گر کا کردار ادا کر سکیں۔ اگرچہ انتخابی موسم نے ابھی اپنی آمد کی باقاعدہ دستک بھی نہیں دی ہے اور الیکشن کمیشن آف انڈیا نے لوک سبھا اور اس کے ساتھ ہونے والے اسمبلی انتخابات کا نوٹیفکیشن بھی جاری نہیں کیا ہے لیکن تمام سیاسی پارٹیاں اس قدر متحرک ہیں گویا انتخابات ہونے میں چند روز ہی باقی ہوں۔ ابھی تک تو حزب اختلاف کے اتحاد کا معاملہ ریاستی سطح پر ہی جاری تھا جس کا آغاز بہار ،تلنگانہ اور آندھرا پردیش سے ہوتے ہوئے اترپردیش میں سماج وادی، بہوجن سماج پارٹی اتحاد پر آکر تھما ہی تھا کہ مغربی بنگال سے وزیر اعلیٰ و ترنمول کانگریس کی سربراہ وممتا بنرجی کی ’’مہا ریلی‘‘ کیلئے آواز اٹھی۔ بس پھر کیا تھا کشمیرسے کنیا  کماری تک وزیر اعظم نریندر مودی مخالف لیڈروں ،جن میں خود بی جے پی کے وہ لیڈران جو مودی کے قد سے حسد میں نیز پارٹی میں کوئی اہمیت نہ دیے جانے کے باعث احساس کمتری و محرومی میں مبتلا ہیں کولکتہ پہنچ گئے،جہاں ان سب نے مرکز میں بر سر اقتدار این ڈی اے حکومت کو نہیں صرف اور صرف مودی اور بی جے پی صدر امیت شاہ کو زبردست ہدف تنقید بنایا اور یہی راگ الاپا جاتا رہا کہ  مودی کو وزارت عظمیٰ کی گدی سے ہٹا کر دوسرا وزیر اعظم لایا جائے۔ان سب کا بس یہی کہنا تھا کہ ’’مودی ہٹاؤ ،دیش بچاؤ‘‘۔لیکن اس نعرے کو لگاتے وقت وہاں موجود کم و بیش تمام لیڈر خود کو اس مسند پر بیٹھا محسوس کرنے لگے اور عظیم اتحاد کی تشکیل سے پہلے ہی وزارت عظمیٰ کے امیدوار کے معاملہ پر حزب اختلاف میں پھوٹ پڑتی دکھائی دے رہی ہے کیونکہ کانگریس لیڈر پی ایل پونیا نے پارٹی کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا کہ راہول گاندھی وزارت عظمیٰ کے امیدوار بنائے جائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عوام کی امیدیں راہول گاندھی سے وابستہ ہیں اور 2019کے لوک سبھا انتخابات اسے ثابت کردیں گے۔ دوسری جانب بہوجن سماج پارٹی( بی ایس پی) ملک کا آئندہ وزیر اعظم مایا وتی کو بنوانا چاہتی ہے۔بی ایس پی لیڈر سدھندرا بھدوریہ کا کہنا ہے کہ مایا وتی ہی واحد رہنما ہیں جو غریبوں ، پسماندہ ذاتوں، مسلمانوں اور خواتین کو اوپر اٹھانے کی کوششیں کر یں گی ۔ان کا کہنا ہے کہ ان کے دور وزارت اعلیٰ میں اترپردیش میں یہ طبقے خوشحالی پاکر چین کی بنسی بجارہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ دلت، مسلمان، غرباء اور خواتین ایسی شخصیت کو و زیر اعظم کی کرسی پر دیکھنا چاہتے ہیں جو ان کی نمائندگی کر سکے۔حالانکہ اس وقت غیر بی جے پی حلقوں میں یہ کہا جارہا ہے کہ کولکتہ سے جو آواز بلند ہوئی ہے وہ ملک کے گوشہ گوشہ پہنچ چکی ہے اور اب ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ عظیم اتحاد کی تشکیل کی راہ میں اقتدار کی ہوس حائل نہ ہو اور وزارت عظمیٰ کی کرسی پر نظر رکھنے کے بجائے صرف اور صرف ایک ایسے عظیم اتحاد پر نگاہ مرکوز رکھی جائے جو نہ صرف پائیدار ہو بلکہ ذاتی مفادات سے بالاتر ہو۔ اس عظیم ریلی سے پہلے کانگریس نے اترپردیش میں بی جے پی کے خلاف سماج وادی اور بہوجن سماج پارٹی کے اتحاد میں کانگریس کو شامل نہ کرنے پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ دونوں پارٹیاں بی جے پی کی آلہ کار بنی ہوئی ہیں۔کانگریس کا  یہ خیال ہے کہ اکھلیش یادو کو خود کو سی بی آئی کے جال میں پھنسنے سے بچانے کیلئے اور مایاوتی خود کو آئی ڈی کی پوچھ گچھ سے بچانے کے لیے لوک سبھا انتخابات کو سہ طرفہ بنا کر مودی کے پھر وزیر اعظم بننے کی راہ ہموار کرر ہی ہیںاور اس کیلئے سیکولر ووٹوں کی تقسیم ضروری ہے جو کانگریس کے اتحاد سے باہر رکھ کر ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ کانگریس کے بارے میں بھی تو سماج وادی اور بہوجن سماج پارٹی ایسا ہی کہہ سکتی ہیں کہ اس نے جان بوجھ کر ایسی شرطیں رکھی ہیں تاکہ اس پر یہ داغ نہ لگے کہ وہ اپنے صدر راہول گاندھی اور یو پی اے چیئرمین سونیا گاندھی کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانے سے بچانے کیلئے درپردہ یو پی کو بی جے پی کی گرفت میں ہی رہنے دینے کیلئے اتحاد سے باہر رہے۔ شاید اسی لیے وہ ایسی شرطوں پر اتحاد میں شامل ہونا چاہتی تھی جو قابل قبول تھی ہی نہیں ۔ دونوں فریقوں کا ایک دوسرے پر شبہ کرنا اس لیے بھی درست محسوس ہوتا ہے کیونکہ بی جے پی سیاسی نوعیت سے نہایت اہم ریاست اترپردیش میں 2019 کے لوک سبھا انتخابات سے قبل سیکولر پارٹیوں کو متحد نہیں ہونے دینا چاہتی تاکہ ووٹ منقسم رہیں اور اس کا فائدہ اٹھائے ۔اگر اترپردیش کی سیاسی صورت حالت ایسی ہی رہی تو کولکتہ جیسی ہزار مہاریلیاں بھی ہو جائیں وہ نشستند،گفتند برخاستند ہی ثابت ہوں گی۔
 

شیئر: