Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حکومتی عدم سرپرستی کے باعث خدشات میں گھرا مسلمانوں کاعظیم ورثہ”خطاطی“

عنبرین فیض احمد ۔ ینبع
    اسلامی ثقافت اپنے جن فنون پر فخر اور ناز کرتی ہے ان میں خطاطی شامل ہے ۔یہ ایک ایسا منفرد، حسین و جاذب نظر فن ہے جسکی نظیر مسلمانوں کے سوا کوئی پیش نہیں کر سکا۔ یہ فن دیگر قوموں میں بھی موجود ہے جو ان کی ثقافتی روایات کا حصہ بھی رہی ہے مگر مسلمانوں نے اپنی خطاطی کو جس فنی توازن ، پختگی ، حسن و کشش اور نزاکت و دل نشینی کے ساتھ رنگوں کی آمیزش سے نکھارا، اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی ۔اس میں فنی وجمالیاتی لحاظ سے کسی بھی تہذیب میں پائے جانے والے خطاطی کے نمونوں سے زیادہ حسن و دلکش پائی جاتی ہے۔
    حقیقت یہ ہے کہ خطاطی ایک ایسا فن ہے جس میں حروف کو منفرد اور دلکش انداز میں لکھا جاتا ہے مگر خطاطی کے خوبصورت نمونے دیکھنے والوں کو اس بات کا ندازہ ہی نہیں ہوپاتا کہ اس کے پیچھے کتنی محنت اور مسلسل ریاضیت کارفرما ہوتی ہے۔ابجد یا حروف تہجی کی ریاضیاتی پیمائش ایک ایسا منفرد فن ہے جس میں مہارت حاصل کرنے والوں نے اپنی ایک عمر اس پر صرف کی۔ یہ فن ایسی لگن مانگتا ہے کہ خون جگر میںانگلیاں ڈبونی پڑتی ہیں نیز یہ کہ دیگر تہذیبوں کے مقابلے میں خطاطی اسلامی تہذیب کااہم حصہ ہے۔ خاص طور پر قرآنی آیات پاک کی خطاطی ، جس کے نمونے مساجد اور دیگر عمارتوں میں نظر آتے ہیں۔
    غرض یہ کہ فن خطاطی ان علوم و فنون میں سے ایک ہے جو مسلمانوںہی کا مرہون منت ہے۔سلام میں خطاطی اس لحاظ سے اہمیت کی حامل ہے کہ قرآن کریم کی آیات مبارکہ کی کتابت سے روحانی بالیدگی حاصل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فن خطاطی مسلم تہذیب اور ثقافت کا قیمتی ورثہ ہے جس سے حوصلہ افزائی ہمارے لئے فخر کا باعث ہے کیونکہ یہ فن قرآن کریم اور اسلام سے ہمارے رشتے کو مضبوط بناتا ہے۔
     خطاطی کے جدید انداز متعارف کروانے کا سہرا عباسی دور حکومت کے سر جاتا ہے۔ اس دور میں ”ثلث “ رسم الخط بھی ایجاد ہوا اور یوں مختلف ادوار میں حکمرانوں کی سرپرستی میں یہ فن ترقی کی منزلیں طے کرتا چلا گیا اور تقریباً60کے قریب رسم الخط متعارف ہوئے۔ یہ تنہا ایسا فن ہے جسکی ابتداءہی بڑے شاندار طریقے سے ہوئی لہٰذا اسکی ترقی بھی خوب ہوئی۔ بادشاہوں سے لیکر عوام تک، سب نے اس میں خوب دلچسپی لی ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہ فن ملک ملک و شہرشہر پھیل گیا۔ جگہ جگہ اس فن کے شاندار نمونے ملتے ہیں۔ یہ نمونے عمارتوں ، کتابوں ، مخطوطوں، جنگی اسلحہ، مختلف دھاتوں کے برتنوں، سونے چاندی کے سکوں اور لکڑی کے سامان پر کنداں ملتے ہیں۔ اکثر اوقات انہیں کپڑوں پر بھی لکھا جاتا ہے۔ خطاطی کے یہ نمونے ہماری تہذیب اور تاریخ کا قیمتی سرمایہ ہیں جنہیں محفوظ رکھنا ہماری ذمہ داری ہے۔یہ لاجواب اور دلکش فن ہے جو شاندار ماضی رکھتا ہے ۔ ماضی میں اس فن نے جتنا عروج پایا ، حال میں اتنا ہی یہ زوال پذیر ہے کیونکہ آرٹ تو صرف انسانی ہاتھ کے کام کو ہی ہم کہہ سکتے ہیں۔
    مسلمانوں کی خطاطی کے شاہکار اپنے فنی و تاریخی ارتقاءاور علاقائی مناسبت سے ایک تقابلی حیثیت میں خود دیگر تہذیبوں اور قومو ں سے تعلق رکھنے والے مستشرقین کی توجہ اورستائش کا ہمیشہ موضوع بنے ہیں اور اس طرح بنے کہ متعدد مجموعے اور منتخبات مغربی دنیا میں بھی آئے دن شائع ہوکر داد و تحسین وصول کرتے رہتے ہیں۔
    اس فن نے اپنی روایات کے تمام تر محاسن کے ساتھ پاکستان میں بھی فروغ پایا ہے۔ یوسف دہلوی نے دہلی سے ہجرت کرکے پاکستان کو اپنا وطن بنایا او راپنے فن کو یہاں ایک مثال کی حیثیت دی کہ جس کو پیش نظر رکھ کر اور ساتھ ہی اپنی ذاتی کاوشوں اور لگن سے ابھرتی ہوئی نسل نے یہاں اس فن کو ایسی زندگی بخشی کہ دنیا آج بھی یاد کرتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ بعض مغربی ناشرین نے جو خود کو صرف اسلامی خطاطی کے انتخابات شائع کرنے کے لئے مخصوص کررکھا ہے اور ان کے شائع کردہ خطاطی کے انتخابات اور نمونے خوبصورت جلدوں میں مغربی شائقین اور امراءکے مابین تحفوں کے طور پر تقسیم ہوتے ہیں اور انکے ڈرائنگ رومز میں میزوں پر رکھے اور الماریوں میں سجے دکھائی دیتے ہیں۔ مغربی ممالک کے متعدد عجائب گھروں میں بھی اسلامی خطاطی کے گوشے مخصوص ہیں جہاں شائقین انہیں بصد شوق دیکھتے ہیں اور سراہے بغیر نہیں رہ سکتے۔ یہ امر ہمارے لئے فخر کا باعث ہے ۔    
    دھنک کے صفحے پر جو تصویر شائع کی گئی ہے اس میں لاہور کے الحمراءہال میں خطاطی کے فن پاروں کی نمائش منعقد کی گئی ہے جس میں ایک لڑکی ان فن پاروں کو دیکھنے میں محو ہے۔ فنون لطیفہ کا اہم موضوع خطاطی جس قدر دلچسپ ہے اسی قدر وسیع بھی ہے۔انسان کو علم بھی قلم کے ذریعے ہی سکھلایا گیا اس لئے خطاطی کی چمک دمک اس میں لکھے گئے لفظوں کی جلوہ آرائی اور اساتذہ کے فن کی تخلیقی صلاحیتوں کا طمطراق فقط مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ غیر مسلموں کو بھی اپنے جلووں سے مسرور کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں اکثر مساجد کے در و دیوار ، فرنیچر اور محل کی تعمیراتی محرابیں عربی خطاطی سے مزین دکھائی دیتی ہیں۔ مغلیہ دور کی اکثر عمارتیں اور خاص طور پر آٹھواں عجوبہ آگرہ کاتاج محل ، لاہور میں مغل دور کی عمارتوں اور سعودی عرب میں کعبہ شریف ا ورمدینہ منورہ میں جو خطاطی کی گئی ہے وہ دیکھنے کے قابل ہے۔ اسے دیکھ کر ہم دنگ رہ جاتے ہیں۔ خاص طور پر کعبہ شریف کے غلاف پر سونے کے تاروں سے لکھے گئے الفاظ تو دیکھنے کے قابل ہیں۔
    اسلامی معاشروں میں خطاطی کے فن نے خوب ترقی پائی ۔ برصغیر بھر میں سر©زمین ملتان کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ یہاںخط نستعلیق کی ایجاد کے بعد ایک نیا طرز تحریر ایجاد کیاگیا جو عربی، فارسی ، اردو، سرائیکی اور پنجابی زبانوںکی تحریر کا نمائندہ ہے۔یہ خط رعنا کے نام سے ایجاد کیا گیا جس سے خطاطی میں مزید آسانیاں پیدا ہوگئیں۔ اسلامی خطاطی یقینا ہمارے لئے حقیقی ثقافتی ورثے کا درجہ اختیار کرچکی ہے اور ایک جمالیاتی فن کے حوالے سے درجہ انتہا کو پہنچ چکی ہے۔
    دور حاضر میں روایتی طرزکی بجائے مصورانہ خطاطی کے رجحا ن میں اضافہ ہورہا ہے جو خوش آئند بات ہے کیونکہ قبل ازیں ہمارے یہاں عام طور پر روایتی خطاطی کی جاتی تھی جس میں طغرے کی تیاری کوہی زیادہ اہمیت دی جاتی تھی مگر اب اسے کیلی گرافی کااسلوب دیدیا گیا ہے ۔ بلاشبہ یہ ایک مشکل اور محنت طلب فن ہے جس میں آرٹسٹ کو تحقیق اور جستجو کی ضرورت ہوتی ہے لیکن جیسے جیسے دنیا ترقی کے میدان میں آگے بڑھتی جارہی ہے، نئے نئے طریقے بھی ایجاد ہورہے ہیں لہٰذا اب ہاتھ کے بجائے کمپیوٹر سے بھی خطاطی ہورہی ہے مگر کمپیوٹر اور ہاتھ کی خطاطی میں وہی فرق ہے جو زمین و آسمان، پھول اور کانٹے، آگ اور پانی میںہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ کمپیوٹرکے آجانے سے خطاطی میں آسانیاں تو پیدا ہوگئیں مگر دونوں میں کوئی مماثلت و مطابقت نہیں۔
    خطاطی کا سب سے عمدہ ذوق ترک قوم کے یہاں پایا جاتا ہے ۔ ضروری ہے کہ اچھا خطاط بننے کا شوق دل کی گہرائی میں ہو۔ قول و فعل اور عمل سے تعلق کا اظہار ہو لہٰذا خطاطی سیکھنا دنوں، ہفتوں یا مہینوں کا کام نہیں بلکہ اس کے لئے سالہا سال کی ریاضت درکار ہوتی ہے کیونکہ محنت ہی انسان کی عظمت اور کامیابی کی ضمانت ہوتی ہے۔
    ایران میں بھی یہ فن بہت ترقی کرچکا ہے جہاں خط نستعلیق میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ترکی، مصر اور پاکستان کے خطاط بھی اس شعبے میں اپنا مقام رکھتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں اس فن کو گزرتے وقت کے ساتھ اتنی پذیرائی نہیں مل رہی جتنی اسے ملنی چاہئے تھی۔ جس کا یہ حقدار تھا۔
    خطاطی ایک فن ہے جو تجریدی دنیا کی تقریباً ہر زبان اور ہر خطے میں پایا جاتا ہے۔ دراصل یہ ایک آرٹ ورک ہے جسے ہم کیلی گرافی بھی کہتے ہیں ۔ اس فن کے بارے میں آگاہی اور حکومتی سرپرستی کا فقدان ہی اصل میں لوگوں کی اس شعبے میںعدم دلچسپی کا باعث ہے۔ اس کی تربیت میں بہت وقت اور محنت درکار ہوتی ہے۔ اس میں ایک ، ایک لفظ کوخوبصورت انداز میں لکھنے کیلئے بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ اس لئے اس فن میں مہارت حاصل کرنے کیلئے لگن ، محنت ، صبر اور حوصلہ بہت ضروری ہے۔ آ ج کے دور میں لوگوں میں خطاطی کی بجائے مصوری اور دیگر فنون اختیار کرنے کا رجحان زیادہ بڑھ رہا ہے۔ اگرچہ کمپیوٹر نے خطاطوں سے کتابت کا بنیادی ذریعہ تو چھین ہی لیا ہے لیکن ان سے خطاطی کا ہنر کوئی نہیں چھین سکا۔ اسلامی تاریخ کا یہ فن آج بھی زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا۔فن خطاطی دیگر تہذیبوں کے مقابلے میں اسلامی تہذیب کا جزو لاینفک ہے ۔خاص طو رپر قرآنی آیات کی خطاطی ، مساجد اور دیگر عمارتوں میں بہت اہم ہے ۔ اس کے نمونے اگر ان عمارتوں میں نظر نہ آئیں تو لگتا ہے کہ عمارت مکمل ہی نہیں ہوئی لیکن اگر حکومت اس شعبے کی باقاعدہ سرپرستی شروع کردے تو خدشات میں گھرا یہ عظیم اسلامی ورثہ ہمیشہ کیلئے محفوظ ہوجائے گا۔

 

شیئر: