Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکہ الوداع ....روس اور چین خوش آمدید ؟!

عدنان کامل صلاح ۔ المدینہ
بعض امریکی تجزیہ نگاروں کے بقول واشنگٹن میں سیاسی اختلافات نے قبائلی جھگڑوں کی شکل اختیار کرلی۔اگر قبائلی تعصب سیاست میں قدم رکھ لے تو وطن برباد ہوجاتا ہے۔ قبائلی تعصب ہی مفاد کا مدار بن جاتا ہے۔ وفاداری قبائلی تعصب کے نام ہوجاتی ہے۔ وطن سے اسکا رخ ہٹ جاتا ہے۔ امریکہ میں قبیلے سے مراد پارٹی ہوتی ہے۔ ڈیموکریٹک اور ری پبلکن پارٹیوں میں سے کسی ایک کا رکن اپنی پارٹی کے رہنما (قبیلے کے شیخ) کی ہمنوائی کرتا ہے۔ پارٹی کا لیڈر حق پر ہو یا باطل پر، رکن اس بات کی ضد پکڑتا ہے کہ اسکی پارٹی (قبیلہ) ہی حق پر ہے اور دوسری پارٹی قصور وار ہے۔ پارٹی کے میلانات سے کسی بھی بغاوت کو بڑی غداری شمار کیا جاتا ہے۔ ایسے قبائلی ماحول ہی میں درمیانے حل فنا ہوجاتے ہیں اور سیاسی کھیل ختم ہوجاتا ہے۔
امریکہ میں قبائلی تعصب نے امریکہ کو درست فیصلے کی حیثیت سے محروم کردیا۔ ٹویٹر پر ٹویٹ کرکے دنیا بھر کے ممالک کیساتھ امریکہ کے تعلقات تبدیل ہونے لگے۔دوسروں کیخلاف دشنام طرازی اور لوگوں کا مضحکہ اڑانا امریکی سیاست میں قابل قبول اسلوب بن چکا ہے۔ مذاق امریکی سیاستدان بھی دیگر ممالک کے سیاستدانوں کا اڑا رہے ہیں اورامریکہ کے دوست ممالک کے رہنماﺅں کا بھی مضحکہ اڑانے کا شوق پورا کررہے ہیں۔اس سے بیرون ملک امریکہ کا وقار متاثر ہورہا ہے اور امریکہ پر اغیار کا اعتماد ٹوٹ رہا ہے۔
اس تناظر میں دیگر ممالک نئے اتحادی اور تعاون کرنے والے نئے ممالک کی تلاش میں سرگرداں ہوگئے ہیں۔ ان میں چھوٹے ممالک بھی شامل ہیں اور بڑے بھی۔ یہ ممالک ایسے فریقوں کے متلاشی ہیں جن پر اعتماد کیا جاسکے اور جو بھروسے کے قابل ہوں۔
امریکی صدر ٹرمپ نے شام سے انخلاءاور وہاں اپنے اتحادیوں سے دستبرداری کا ٹویٹ کرکے خطے میں امریکہ پر اعتماد کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ شام کے کردی ہوں یا داعش مخالف عالمی اتحاد میں شامل فریق ہوں سب کے سب امریکی صدر کے مذکورہ ٹویٹ پر حیران ہوگئے۔ شام سے امریکی انخلاءشام میں متعدد کھلاڑیوں کو وہاں اپنا اثر و نفوذ بڑھانے اور اپنے اڈے مضبوط کرنے کا زریں موقع ثابت ہوگا۔ سب سے زیادہ اس سے روسی فیض یاب ہونگے۔ علاوہ ازیں ایران میں ملاﺅں کا نظام جس کی بابت ٹرمپ انتظامیہ یہ دعویٰ کرتے کرتے نہیں تھکتی کہ وہ بیرون ایران اس کے اثر و نفوذ کو گھٹانے اور اندرون ملک اس کے اقتدار کو کمزور کرنے کے درپے ہے۔ اسے بھی شام میں اپنے ہاتھ پیر پھیلانے کا موقع مل رہا ہے۔شام سے امریکی انخلاءکو ایرانی نظام اپنی فتح سمجھ رہا ہے اور اندرون ملک سیاسی کارنامے کے طور پر پیش کررہا ہے۔ شام سے امریکی انخلا ءنے ایران کو شام میں زیادہ اہم مقامات اور زیادہ بڑے رقبے میں اپنی ملیشیاﺅںاور فوجی مشیران کو تعینات کرنے کا موقع ہاتھ آگیا۔ امریکی انخلاءکی صورت میں اسرائیلی ایرانیوں کو شام میں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کرسکتے۔
ایسے عالم میں جبکہ امریکہ اندرون و بیرون ملک پسپائی اختیار کرتا جارہا ہے اور امریکی انتظامیہ اور اسکی پالیسیاں اتحادیوں کی نظر میں غیر معتبر ہوتی جارہی ہیں، روس خطے میں اپنے اتحادیوں کا پشت پناہ بنا ہوا ہے۔ خطے کے ممالک اس پر انحصار کرنے لگے ہیں۔ سوڈان اسکی آخری مثال ہے۔ چینی اقتصادی اور ترقیاتی وسائل کے ذریعے خطے کے ممالک کیساتھ تعاون کی رغبت ظاہر کرنے لگے ہیں اور وہ ممالک جو امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو ڈانواں ڈول ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں وہ عالمی سطح پر روس یا چین دونوں میں سے کسی ایک کیساتھ تعاون کی بابت غور کرنے لگے ہیں۔
اب ہم عبوری دور سے گزر رہے ہیں۔ یہ وہ دور ہے جس میں امریکہ او راسکے ساتھ یورپی ممالک اپنے اتحادیوں اور دوستوں کو گنوا رہے ہیں اورانکی جگہ مشرق وسطیٰ میں روس اور چین کے ساتھ نئے دوست اور نئے اتحادی پیدا ہورہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ مستقبل کے حوالے سے دور اندیشی کی صلاحیت سے محروم ہوگیا ہے اور کیا امریکہ کے حساب پر زبردست تفرقہ امریکی سیاست پر چھا گیا ہے۔کیا امریکی فیڈریشن کے حصے بخرے ہونگے۔ اسکی ریاستیں خود مختار ممالک میں تبدیل ہونگی۔ کیا مشرق وسطیٰ امریکہ کو الوداع اور چین اور روس کے ساتھ اتحاد پر مشتمل نئے دور کو خوش آمدید کہنے جارہا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: