Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سزا میں تضاد ملکی نظام کےلئے مسئلہ

***احمد آزاد ۔ فیصل آباد***
میرے سامنے دو تصاویر ہیں ایک میں اربوں کی کرپشن کرنے والا ہے اور دوسری میں کروڑوں کی کرپشن کرنے والا ہے ۔اربوں کی کرپشن کا الزام سہنے والا استری شدہ صاف ستھرے کپڑوں اور آزادانہ ہاتھوں کو ہلاتا اور مسکراتا ہوا جلوس کے ساتھ پولیس کی گاڑی سے نکلتا ہے جبکہ دوسری طرف ہتھکڑی لگائے ہوئے قیدیوں کی گاڑی میں سے برآمد ہوتا ایک شخص ہے جس پر ایک کیٹرنگ کمپنی کو 3کروڑ 70لاکھ روپے اور ٹھیکہ دینے کا الزام ہے ۔کراچی میں 1952ء کے پانچویں ماہ میں پیدا ہونے والا یہ شخص ڈاکٹر شاہد مسعودہے جو پاکستان کے مشہور و معروف نجی ٹی وی چینلوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے ساتھ ساتھ پاکستان ٹیلی ویژن کا مینجنگ ڈائریکٹر اور چیئرمین بھی رہ چکاہے ۔وکی پیڈیا کے مطابق شاہد مسعود کا تعلق کاکازئی پشتون قبیلے سے ہے ۔2004ء میںایک غیر ملکی اخبار کو انٹرویو کے مطابق ڈاکٹر شاہد مسعود کے والد نے سعودی عرب کی پٹرولیم کمپنی میں بطور سول انجینئر15سال خدمات سرانجام دیں۔شاہد مسعود کا بچپن طائف اور ریاض میں گزرا۔ابتدائی تعلیم کے 7سال ریاض کے پاکستان انٹرنیشنل اسکول میںگزارے۔شاہد مسعود کے دوبھائی سعودی عرب میں ہی پیدا ہوئے اور سعودی عرب سے ڈاکٹر شاہد مسعود کا تعلق بچپن وہاں گزارنے کی وجہ سے کافی گہرا ہے ۔انگلینڈ کے رائل کالج آف سرجن سے فیلو شپ حاصل کی اور پھر ایم بی بی ایس کی ڈگری جناح سندھ میڈیکل یونی ورسٹی سے حاصل کی۔2001ء میں صحافت کے میدان میں قدم رکھا اور اے آر وائی ( سابقہ اے آر وائی ڈیجیٹل نیٹ ورک) کے سینئر ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کے طور پر خدمات سرانجام دیں ۔ 2005ء میں ان کا سفر جیو ٹی وی میں بطور گروپ ایگزیکٹیوڈائریکٹر شروع ہوا اور یہاں پر انہوں نے مشہور زمانہ پروگرام ’’میرے مطابق‘‘ کی میزبانی کے فرائض سرانجام دئیے۔ جون 2008ء میں انہیں پی ٹی وی کا چیئرمین مقررکرتے ہوئے اس کے ساتھ اضافی چارج کے طور مینیجنگ ڈائریکٹر کا عہدہ بھی 2سالہ کنٹریکٹ پردے دیا گیا ۔لیکن نومبر2008ء میں ہی یعنی چند ماہ بعد ہی انہوں نے پی ٹی وی کو خیرباد کہہ دیا ۔اطلاعات کے مطابق اس وقت کی وزیراطلاعات شیری رحمن اور ڈاکٹر شاہد مسعود کے درمیان ہونے والے اختلافات اس استعفیٰ کی بنیادی وجہ بنے ۔آج کل بھی ڈاکٹر شاہد مسعود پی ٹی وی والے دورانیے کی ہی سزا وجزا بھگت رہے ہیں ۔پاکستانیوںکی چھی خاصی تعدادڈاکٹر شاہد مسعود کے پروگرام کو بڑے ذوق و شوق سے دیکھتی ہے ۔آپ ان کے طرز تکلم سے اختلاف کرسکتے ہیں ،ان کے بیان کیے گئے تجزیے سے بھی اختلاف ممکن ہے لیکن انداز تخاطب اس قدر جاندار ہے کہ اسے سننے کو دل کرتا ہے ۔اس قدر بہترین کیرئیر کا حامل شخص آج ہتھکڑی ہاتھوں میں لگائے عدالتوں کے چکر کاٹ رہا ہے ۔پچھلے دنوں ڈاکٹر شاہد مسعود کو اچانک بے ہوش ہونے ، 15سے 20منٹ حواس اور دماغی غیر حاضری کی وجہ سے ہسپتال منتقل کرنا پڑا۔ڈاکٹر شاہد مسعود کی طبی رپورٹس کے مطابق ان پر فالج کا حملہ ہوا ہے ۔مزید طبی ٹیسٹوں کے بعد پمز ہسپتال کے ڈاکٹروں نے انہیں چند دن اپنی نگرانی میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔پچھلے تقریباََ 3ماہ سے ڈاکٹر شاہد مسعود جیل میں ہیں اور ان پر بطور چیئرمین پاکستان ٹیلی ویژن 3کروڑ 70لاکھ کے قریب رقم کی کرپشن کا الزام ہے ۔یہاں بھی جعلی کمپنی ہی سامنے آرہی ہے ، وہاں تو ضمانتیں ، گھر سے کھانے ،طبی سہولیات، وکلاء ، سیاست دانوں اوراہل خانہ سمیت دوستوں تک سے ملنے کی اجازت ہے لیکن ادھر اس کے برعکس ہورہا ہے ۔ماضی میں بھی ڈاکٹر شاہد مسعود پر اس سے ہٹ کرکئی الزام لگتے رہے ہیں جیسا کہ 2010ء میں ایکسپریس ٹریبیون کی خبر کے مطابق ثقافت کو نفرت انگیز طریقے سے پیش کرنے پر کراچی سے ایک شہری نے پٹیشن فائل کروائی ، 2013ء میں انسداد دہشت گردی عدالت نے عدلیہ کے خلاف بولنے پر ڈاکٹر شاہد مسعود کو طلب کیا اور معافی نامہ لکھ کرانہیں عدالت میں جمع کروانا پڑا۔2016ء میں اسحاق ڈار کی طرف سے ان کوایک پروگرام کی وجہ سے لیگل نوٹس بھیجا گیا اور مارچ 2018ء میں ہوئے اندوہناک واقعہ زینب قتل کیس میں ان کی طرف سے کیے گئے پروگرام جس میں ڈارک ویب سے قاتل کا ناتا جوڑا گیا تھا، جے آئی ٹی نے ان کی طرف سے بیان کی گئی باتوں کو غلط قرار دیااور ان کے پروگرام پرسپریم کورٹ نے 3ماہ کے لیے پابندی عائد کردی ۔نومبر 2018ء میں انہیں کرپشن کیس میں گرفتار کرلیا گیا ۔ ابھی تک 2بارضمانت مسترد ہوچکی ہے اور اڈیالہ جیل میں قید کاٹ رہے ہیں ۔ان سے ہٹ کر بھی کئی ایسے صحافی،تجزیہ کار،قلم کار اورمیڈیا سے جڑی شخصیات ہیں جن پر مختلف نوعیت کے مقدمے ہوتے رہتے ہیں اور وہ اس کے ساتھ ساتھ اپنی صحافتی ذمہ داریاں بھی نبھاتے نظر آتے ہیں لیکن ڈاکٹر شاہد مسعود کے ساتھ ایک طرح سے خصوصی برتائو کیا جارہا ہے۔جہاں اربوں ڈالر کی رقم غائب کرنے والے کھلے عام مکمل آزادی سے گھوم رہے ہوں وہاں ایسے بندے کا جس پر 3کروڑ 70لاکھ کی کرپشن کا الزام ہے اسے جیل میں ڈال کر دوبار ضمانت بھی مسترد کردی جائے ۔پاکستان میں نظام اس قدر تہہ در تہہ ہے کہ سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے کہ یہ ملک خداداد کس طرح سے چل رہا ہے ۔آپ تھانہ کچہری کا ایک بار سرسری سا جائزہ لے لیں تو نظام کی سمجھ آجائے گی ۔پولیس اصلاحات کی بات ہورہی ہے اور بالکل ہونی بھی چاہیے ۔ایک طرف بکری چور کوبغیر ایف آئی آر ودیگر قانونی تقاضوں کے پولیس اٹھاکر وڈیرے کے ڈیرے پر لے جاکر تشدد کا نشانہ بناتی ہے اور دوسری طرف طاقت و اقتدار کے نشہ سے چور قاتلوں ، چوروں ، ڈاکوئوں اور مجرموں کو مکمل پروٹوکول دیتے ہوئے جیل میں مکمل سہولیات دی جاتی ہیں ۔انسپکٹر و دیگر پولیس والے اس بارسوخ مجرم کی آئو بھگت کرتے ہیں ،اسے تھانے کے باہر بنے ہوٹل سے اسپیشل دودھ پتی منگوا کر پلائی جاتی ہے اور تفریح طبع کے لیے ٹی وی تک مہیا کردیا جاتا ہے تاکہ قید تنہائی اس کے اعصاب پر اثر نہ کردے ۔یہ نظام ہے جس میں اس وقت ڈاکٹر شاہد مسعود معروف اینکر،محقق وتجزیہ کار پھنسے ہوئے ہیں ۔اس وقت سابقہ وزرائے اعظم ،سابقہ صدر،وزراء اور بڑی بڑی شخصیات عدالتوں کے چکر لگاتی اور ضمانت قبل ازگرفتاری کرواتی نظرآتی ہیں لیکن ان کے ذرا شاہانہ ٹھاٹھ ہوتے ہیںاگر وہ جیل میں قسمت کے ہاتھوں پہنچ بھی جائیں تو ہسپتال صرف چند لمحوں کی دوری پر ہوتا ہے اور بعض مرتبہ تو ہسپتال کوہی جیل قرار دلواکر سزا پوری کر لی جاتی ہے ۔رشوت، اقربا پروری، منی لانڈرنگ اور دیگر ان جیسے جرائم ہمارے معاشرے کے لئے تباہ کن ہیں ۔ہمارا ماننا ہے کہ جس نے بھی جرم کیا ہے اسے سزا ملنی چاہیے لیکن جرائم کی سزا میں اس قدر تضادکاہونا ملکی نظام کو دیرپاراحت نصیب نہیں کرے گا ۔مجرموں کے ساتھ یکساں سلوک عدالتوں کے فیصلے کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جانا چاہیے ۔کسی مجرم کی بے جا حمایت اور بے جا مخالفت کا رویہ ختم کرنا ہوگا تاکہ عوام میں پائی جانے والی بے چینی ختم ہو اور انصاف کا بول بالا ہوتا نظر آسکے ۔
 

شیئر: