Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گھریلو ملازمہ یوں دھوکہ دے گی، مالکن نے تصور بھی نہیں کیا تھا

 تسنیم امجد ۔ریاض
    
ڈاکٹر ریم اورڈاکٹرفر قان ہمارے ہمسائے تھے ۔کمپاﺅ نڈ میں سب ہی دوسرے ممالک یعنی امریکہ اور خلیجی ملکوںسے تھے ۔اسی لئے ان سے ہماری دوستی زیادہ ہو گئی تھی۔ گو کہ ہم پنجاب اور وہ سندھ سے تھے،اردو اور پنجابی کبھی ہمارے آ ڑے نہ آ ئی ۔ڈاکٹر فرقان کو پنجابی کلچر پسند تھا۔اس لئے ریم مجھ سے ہمارے کھا نو ں کی تر کیبیں پو چھتی رہتی ۔شام کی چائے اور ہفتہ وار بریک ہم اکثرایک دوسرے کے گھر گزارتے ۔ ان کے دونوںبچے ،دانیا اور اظہر،بھی ہم سے خوب ما نوس تھے۔ اکثر ان کی ملازمہ چھٹی پر جاتی توہم ہی انہیں رکھتے ۔
    دانیا ابھی چار کی اور اظہر ڈھائی سال کا تھا ۔دونوں بہت سلجھے ہوئے تھے ۔ایک دن دانیا نے بتایا کہ ہماری آنٹی( ملازمہ ) ہمیں کہتی ہے کہ تم میرے ساتھ میرے شہر چلو،وہاں کچھ دن رہ کر آ تے ہیں۔خوب جھو لے جھلاﺅں گی ۔ہمارے شہر جیسے جھولے کہیں نہیں ہیں۔ ہم نے ہنستے ہوئے انہیں سمجھایا کہ وہ ایسے ہی آپ سے کہتی ہے ۔خیال رکھنا کسی کے ساتھ کہیں نہیں جاتے ۔ان کی آنٹی سری لنکا سے تھی ۔اسکے خا صے جاننے والے تھے ۔وہی اسے ویک اینڈ پرلینے آتے ۔ریم آنٹی سے کہتی کہ انہیں کھانا وانا کھلا کر بھیجا کریں ۔اس طرح وہ ان کی خوب خاطر مدارت کرتی ۔وہ بچوں سے بہت محبت کرتی تھی اس لئے ریم کو بہت پسند تھی ۔ورکنگ خواتین کو اکثر گھریلو کام کاج کے لئے ملازم رکھنا نا گزیر ہو تا ہے۔اس سلسلے میں اکثرخواتین پریشان رہتی ہیں۔و طن میں ہو ں یا وطن سے باہر،مسا ئل یکسا ں ہی ہیں۔ریم کے لئے یہ ایک نعمت سے کم نہ تھی ۔
    ایک دن ریم اور اس کے شوہرگھبرائے ہوئے آئے کہ بچے آپ کی طرف تو نہیں آ ئے ۔ہم بھی گھبرا گئے اور بھاگے ان کے ساتھ کمپاﺅنڈ میں ادھر ادھر ۔سیکیورٹی گارڈ نے بتایا کہ اس نے انہیں آنٹی کے ساتھ با ہرجاتے دیکھا تھا ۔اس بات کو ایک گھنٹہ ہو چکا تھا۔ ہمارے ہاتھ پاﺅں پھول گئے ۔کمپاﺅنڈ کی سیکیورٹی کی گاڑی کو بھی ساتھ لیا اور ان کو ڈھونڈنے نکلے۔آ نٹی کے بتائے ہوئے پتے پر معلوم ہوا کہ وہ تو کبھی کبھاریہاں آتی ہے ۔ان کے بتائے ہوئے ایڈ ریس پر اس کے گاﺅں بھاگے ۔ساتھ ہی پولیس کوبھی رپورٹ لکھوا دی ۔اسی تگ و دو میںشام ہو گئی ۔
    ریم کارو رو کر برا حال تھا ۔اسے سنبھا لنا مشکل ہو رہا تھا ۔ڈاکٹر فرقان نے خود کو حو صلے میں رکھا ہوا تھا جبکہ ان کی آ واز لڑ کھڑا رہی تھی۔آخر عشاءکے وقت ہم پولیس کے ساتھ اس ٹھکانے پر پہنچ گئے جہاں وہ بچوں کو لے کر چھپی تھی ۔دونوں بچے بہت خوش تھے ۔والدین کو دیکھ کر بولے صبح آ نٹی ہمیں جھولے دلوانے لے جائیںگی پھر ہم گھر آ جائیں گے ۔ہمیں آنٹی نے بہت اچھی اچھی چاکلیٹ بھی کھانے کو
 دی ہیں ۔آپ تو کھانے نہیں دیتے ناں ۔آنٹی کہتی ہیں کہ اس چاکلیٹ سے دانت خراب نہیں ہوں گے ۔ہم اس آ نٹی کے ساتھ واپس گھر پہنچے اور آ نٹی کوپولیس کے حوالے کیا ۔
    اس وا قعے نے ہم سب کو ہلا کر رکھ دیا ۔گھر کی مالکن ریم کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ آ نٹی کی طرح سمجھی جانے والی گھریول ملازمہ ان کے ساتھ اس طرح دھوکہ کرے گی ۔اس کے بعد اس نے ملازمت چھوڑ دی جبکہ ہم نے بہت سمجھایا کہ کسی ڈے کیئر وغیرہ میں انتظام کر لو لیکن وہ بولی کہ میں ابھی اس صدمے سے نکلی نہیں ۔سوچ بھی نہیں سکتی کہ انہیں کسی کے حوالے کروں ۔اس کے شو ہر بھی اداس و پریشان رہنے لگے ۔
    ایک دن شام کی چائے پر انہوں نے بتایا کہ ان کے بھائی نے انہیں امریکہ بلالیا ہے ۔اور وہ اگلے ماہ تک جارہے ہیں ۔وہ کہنے لگے کہ ان کا دل بچوں کے اس واقعے کے بعد سے بہت اچاٹ ہو گیا ہے ۔وہ سنبھل ہی نہیں پا رہے ۔ہو سکتا ہے وہاں نئی شروعات سے سنبھل جائیں۔
     وا لدین دو نو ں ہی ملا زمت پیشہ ہو ں تو ملا زم اس سے نا جا ئز فا ئدہ اٹھا تے ہیں۔اکثر اس سلسلے بہت سے وا قعات سننے کو ملتے ہیں۔ بعض اوقات گھر میں رہنے والی ما ﺅ ں کی ذرا سی غفلت بھی مسا ئل کا سبب بنتی ہے۔اکثر بچے ملاز موں کی وجہ سے کسی علت میں مبتلا ہو جا تے ہیں اور وہ خوف کے باعث والدین سے ذکر نہیں کرتے۔کبھی کبھی ملا زم یا ملا زمہ کے تشدد سے بھی ڈرتے ہیں۔وا لدین کو اس وقت معلوم ہو تا ہے جب بچہ نفسیا تی مریض بن چکا ہو تا ہے اور مستقبل میں کسی منفی رحجان سے مقا بلہ کرنے کے قابل نہیں رہتا ۔بچو ں میں خود اعتمادی اور شخصیت سازی کا عمل تو ہو ش سنبھا لتے ہی شرو ع ہو جا تا ہے ۔ایک نرم و نا زک پو دے کو تنا ور در خت بنا نے کے لئے ہوا ،پا نی ،کھاد اور رو شنی کی طرح ہر شے کی ضرورت ہو تی ہے۔والدین سے بہتر با غبان کو ئی نہیں ہو سکتا ۔بچو ں کی جذ باتی و رو حانی تر بیت ان کی دیگر ضرو ریاتِ زندگی کی طرح ہی اہم ہے۔اکثر والدین اپنے اوربچو ں کے درمیان فا صلہ رکھتے ہیں۔ اس طرح بچے کچھ بتا تے ہو ئے ڈرتے ہیں۔والدین سو چتے ہیں کہ ان کی ذمہ داری کھلا نا پلا نا اور دیگر ضروریات کی تکمیل ہی ہے لیکن والدین سے التماس ہے کہ اپنے فرائض کا ہرپہلو پہچا نیں۔ اصل دولت اولاد ہی ہے ۔اکثر والدین اولادوں کو کئی کئی دن کے لئے اپنے رشتے دا رو ں یا احباب کے ہا ں چھو ڑ دیتے ہیں۔ یہ بھی لا پر وائی کے ز مرے میں آتا ہے۔آنکھ او جھل پہا ڑ اوجھل ،مثل تو آپ نے سنی ہو گی۔اس طرح دوسرے گھرو ں کے ما حول سے بچے متا ثر ہو تے ہیں۔آپ کو کیا خبر وہا ں بھی بچے کسی ایسے تجربے سے گزررے ہوں جو ان کی زندگی پر ا ثر انداز ہو ۔بچو ں میں احساس محرومی ان کی آئندہ زندگی پر اثر انداز رہتی ہے ۔ما ں کے ذمے ایک نسل کی پر ورش ہے جس سے قوم کے ساتھ ساتھ خاندان کا مستقبل وابستہ ہے۔ملا زمت پیشہ ما ﺅ ں کو کو ئی ایسا لا ئحہ عمل اختیار کر نا چا ہئے کہ بچے نظر انداز نہ ہو ں۔
    گز شتہ دنو ں چا ئلڈ اینڈ فیملی ہیلتھ سا ئنسز کی تحریر نظر سے گز ری جس میں والدین اور بچو ں کا تعلق اس طرح بیا ن کیا گیا ہے کہ اسٹالر میں بیٹھا بچہ بھی مڑ مڑ کر ما ں کا چہرہ دیکھنا اسی لئے چا ہتا ہے کہ وہ کچھ ہی دیر میں تنہا ئی اور تنا ﺅ محسوس کر نے لگتا ہے۔ ما ہرین کا کہنا ہے کہ بچو ں کے پا س تخلیات کا خزا نہ ہو تا ہے۔والدین کو اس پر نظر رکھنی چا ہئے۔انہیںملا ز مین کے سپرد کر کے لا تعلق نہیںہونا چاہئے ۔اپنی مصرو فیات کو کبھی آ ڑے نہ آ نے دیں۔ملا ز مین یا قریبی تعلقات والے ،جن پر آپ خواہ اندھا اعتماد ہی کیو ں نہ کرتے ہو ں،ان پر نظر رکھنی ضروری ہے۔

 

شیئر: