Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

والدہ کی سہیلی بھی ہوں، مشیر خاص بھی، شفا مریم

زینت شکیل۔جدہ
    العزیز الحکیم سے جو شخص مغفرت چاہتا ہے، اسے چاہئے کہ وہ پابندی کے ساتھ کثرت سے استغفار کرتا رہے۔ ہر شخص کو چاہئے کہ وہ صحت کو ایمان کے ساتھ، ایمان کو حُسن خلق کے ساتھ اور اس نجات کو جس کے ساتھ دنیا و آخرت کی فلاح ہو، رب کریم سے طلب کرے۔
    زبان انسان کا تعارف ہے ۔ انداز گفتگو شخصیت کی آگاہی کا ذریعہ ہے۔ اس سے خیالات کی تیزی اور فکر کی گہرائی کا اظہار ہوتا ہے مختلف زبانیں سیکھنے کا رجحان آج نیا نہیں بلکہ ایسا پہلے زمانے میں بھی ہوتا تھا۔ اسی سلسلے میں”ہوا کے دوش پر“ ہماری گفتگو محترم دلاور عبدالحمید اور انکی اہلیہ محترمہ شفا مریم سے ہوئی۔ انہوں نے معاشیات کے مضامین کا انتخاب کیا اور اپنے انتخاب کو معتبر بھی بنایا۔انہوں نے بتایا کہ ہائی اسکول کے بعد اسرا یونیورسٹی حیدرآبادسے پہلے بی بی اے اور بعد ازاں ایم بی اے کی ڈگری امتیازی نمبروں کے ساتھ حاصل کی۔ بچپن ہی سے نصابی و ہم نصابی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ کتابی کیڑا بالکل نہیں بنیں۔ وقت کو منظم کیا اور ”آج کا کام کل پر نہ ڈالو“ کا کلیہ اپنے لئے لازمی قرار دے دیا جس کے مثبت نتائج مرتب ہوئے ۔انہیں اپنی والدہ کی وقت کو منظم کرنے کی عادت بہت پسند ہے ۔ویسے تو ہر بچہ اپنے والدین کے لئے بہت اہم ہوتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ والدین کی محبت بھی ہر دم بچوں کے دل میں رہتی ہے اور اکثر ماں کی محبت کا کسی نہ کسی طرح اظہار بھی ہوتا رہتا ہے ” ماں“ کے لئے ساغر صدیقی کی غزل کے چند اشعار انہوں نے پیش کئے:
اگر بزم ہستی میں عورت نہ ہوتی
خیالوں کی رنگین جنت نہ ہوتی
ستاروں کے دل کش فسانے نہ ہوتے
بہاروں کی نازک حقیقت نہ ہوتی
جبینوں پہ نور مسرت نہ کھلتا
نگاہوں میں شان محبت نہ ہوتی
گھٹاﺅں کی آمد کو ساون ترستے
فضاﺅں میں بہکی بغاوت نہ ہوتی
 مسافر صدا منزلوں پہ بھٹکتے
سفینوں کو ساحل کی قربت نہ ہوتی
ہر اک پھول کا رنگ پھیکا سا رہتا
نسیم بہاراں میں نکہت نہ ہوتی
    محترمہ شفا مریم کا کہنا ہے کہ عورت ایک گھر کی رہنما ہوتی ہے ۔جیسی رہنمائی وہ اپنے بچوں کی کرتی ہے ،اسی کے نقش قدم پر بچے چلتے ہیں۔ہماری والدہ نے ہمیں یہی بتایا کہ زندگی چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے معمور ہے۔ایک دوسرے کا احترام ،سوچ میں واضح تبدیلی لاتا ہے۔ سچ کہنا اور غلط بیانی سے بچنا بچوں کی تربیت میں بہت اہمیت رکھتا ہے ۔ زبان کا درست استعمال بہت ساری کلفتوں سے دور رکھتا ہے۔
اسے بھی پڑھئے:بے پھل کے درخت لگانا اجتماعی نا سمجھی ہے، راحیلہ منہاس
     محترم دلاورعبدالحمید ان کے عم زاد ہیں۔ انہوں نے مہران انجینیئرنگ یونیورسٹی، حیدرآباد سے بیچلرز پروگرام مکمل کیا اور اپنی پہلی جاب حیدرآبادمیں ہی شروع کی۔ بعد ازاں انگلینڈ جانے اور وہاں جاب حاصل کرنے کے بعد اپنی فیملی کے لئے رہائش کا اہتمام بھی کیا ۔ تعلیم و تربیت کی اہمیت سے واقف ہیں اسی لئے دیار غیر میں رہ کر بھی بے بی سٹنگ کی بجائے ماں کی گود میں بچوں کی پرورش کے حق میں ہیں۔
     محترمہ شفا مریم نے کہا کہ اچانک مل جانے والی خوشی ہمیشہ یاد رہتی ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے اپنے بچپن کا ایک واقعہ بتایا جو انہیں آج بھی پوری جزیات کے ساتھ یاد ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں ہر سال اردو کے مضمون میں امتیازی نمبر لیا کرتی تھی۔ ایسی ہی ایک سالانہ تقریب تقسیم انعامات کے دن جبکہ وہ چھٹی جماعت کی طالبہ تھیں، فی البدیہ مقابلہ کے لئے عنوان دیا گیا اور یہ سندھی میں نہیں بلکہ اردو زبان میں تھا۔ میں نے بھی اس میں حصہ لیا۔ اس وقت تو بس اتنا ہی معلوم ہوا کہ سب سے زیادہ تالیاں میری تقریر کے بعد بجائی گئیں اور پھر بات آئی گئی ہوگئی ۔ایک سال کے بعد جب سالانہ تقسیم انعامات و اسناد کی اسکول کی تقریب منعقد کی گئی تو میرے نام کا اعلان کیا گیا اور اس سال جو اردو میں امتیازی نمبرز حاصل کئے، اس کا انعام ملا پھر دوبارہ اچانک اسٹیج پر میرے نام کا اعلان ہوا اور فی البدیہ اردو مقابلے کا انعام دیا گیا۔ یہ اچانک ملنے والی خوشی آج بھی یاد ہے کہ جب مجھے اسٹیج پر بلا یاگیا ۔اس سرپرائز کو یاد کرکے آج بھی خوشی ملتی ہے اور یہی خیال آتا ہے کہ اسکول ،کالج کسی بھی طالب علم کی زندگی میںکتنے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ہمیشہ تعلیمی اداروں کے سربراہوں کو اس بات کاخاص خیال رکھنا چاہئے کہ یہ بچے آج چھوٹے ضرور ہیں، کل بڑے ہونگے اور ہمیشہ اپنے بچپن کی خوشگوار یادوں کا ذکر ایسے ہی کریں گے جیسے کہ یہ کوئی انمول خزانہ ہو۔
     محترمہ شفامریم نے کہا کہ سب سے بڑی بیٹی ہونے کے ناتے وہ اپنی والدہ کی سہیلی بھی ہیں اور مشیر خاص بھی ، اس بات کا بھی
 ذکر ہوا کہ کبھی کسی چیز کا خیال آیا کہ مجھے فلاںشے خریدنی ہے، کبھی وقت نہیں ملا اور کبھی شاپنگ سنٹر میں جیسی ذہن میں تھی ویسی چیز ،نہیں ملی اور پھر پارسل میں میری والدہ کی طرف سے وہی چیز بغیر کہے مجھ تک پہنچتی ہے تو سوچ میں ڈوب جاتی ہوں کہ میری ماں کو کیسے پتہ چلا کہ مجھے یہی چیزچاہئے تھی؟
    محترم دلاور، شفامریم کے عمزاد ہیں تو شادی کی رسمیں مشترک ہی تھیں۔سہیلیوں کی ایک دن الگ سے ڈھولکی کی تقریب ہوئی جو سب سے زیادہ یادگار رہی۔ پھولوں کی سجاوٹ اچھی تھی مگر پورے ہال کے علاوہ وہ جھولا جو دلہن کے لئے خاص سجایا گیا تھا، سب کو بہت پسند آیا ۔سب نے ہی دلہن والوں کی طرف سے شادی بیاہ کے گیت گائے اور اس کے بعد گانوں کا مقابلہ بھی ہوا۔ روایتی رقص کا مظاہرہ بھی ہوااس خوشی کے موقع پر ۔ تمام سہیلیاں رات گئے تک اپنی سریلی اور غیر سریلی آوازوں میں گلوکاری کرتی رہیں اور سب نے ہی دعویٰ کیا کہ اس ڈھولکی میں سب سے زیادہ سریلی آواز انہی کی تھی۔ میوزک نے تو کچھ زیادہ دھوم مچانے میں کردار اد ا نہیں کیا حالانکہ سب ہی کو اندازہ تھا کہ سب کی آواز تو تیز میوزک میں دب کر رہ گئی تھی۔
    محترم دلاورنے مہران یونیورسٹی حیدرآباد سے انجینیئرنگ کی پھر اپنے شہر میں ایک معروف ادارے میں خدمات انجام دینے لگے۔اپنی اہلیہ کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ شفا مریم بہت سادہ طبیعت کی مالک اور محنتی ہیں۔ انکی بات سنی جاتی ہے کیونکہ حکمت کے ساتھ بات کرتی ہیں ۔انہیں اس کے بارے میں علم بھی ہوتا ہے اور وہ بات سچی بھی ہوتی ہے پھر ان کی نیت بھی اچھی ہوتی ہے اور جب گفتگو کرتی ہیں توالفاظ کا چناﺅ بھی بہترین ہوتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ انسان اپنے انداز گفتگو سے ہی اپنا تعارف کراتا ہے۔
     محترمہ شفا مریم کا کہنا ہے کہ عمر کا فرق مناسب ہو تو سب سے بہتر ہے کہ اپنے خاندان میں ہی رشتے کئے جائیں لیکن اگر ایسا نہ ہو تو
 خاندان سے باہررشتہ طے کر لینا چاہئے۔ ایک اور اہم بات کی طرف انہوں نے متوجہ کیا کہ اگر کئی نسلوں سے کزنز میں ہی شادی ہو رہی ہو اور اس کی وجہ سے کوئی ہیلتھ ایشوز ہوں اور ڈاکٹر بھی کزنز کی شادی کو منع کردیں تو اس بارے میں سوچنا ضرور چاہئے اور اپنے خاندان کو وسیع
 کرنا چاہئے ۔ادب کی بات ہوئی تو انہوں نے بتایاکہ بچپن میں کھیل یا اسپورٹس کی طرف زیادہ رجحان نہیں رہا بلکہ جہاں کوئی کہانی کی کتاب ملی، فوراً اس کو پڑھ کر ختم کرنے کی خواہش ہوتی تھی۔اردو میں اشتیاق احمد کی کتابیں بہت پڑھتے تھے جبکہ انگریزی میں اینڈ بلیٹن کی فیمس فائیواور سویٹ ویلی اور آجکل معروف ادیبہ عمیرہ احمد اور نمرہ احمد کو پڑھتی ہوں جبکہ انگریزی ادب میں جیفری آرتھر، سڈنی شیلڈن پسند ہیں ان رائٹرز کی یہ بات پسند آتی ہے کہ ان کی تحریر میں حقیقت پسندی ہوتی ہے اور اس سے پڑھنے والا قاری سبق سیکھتاہے کہ کوئی چیز بھی ناممکن نہیں۔ اس کے لئے محنت اور جستجو کی ضرورت ہوتی ہے۔محترم دلاور اور شفا مریم کی شادی میں دونوں جانب سے ماﺅں نے اپنی خوشی خوب دھوم دھام سے منائی ایک دن مایوں کا رکھا گیا ۔ دوسرے دن لڑکے والوں نے مایوں کی رسم کی لیکن سب سے پہلا دن درس کا تھا جس میں غلام محمد سوہنو نے نکاح کے موضوع پر ایک پر اثر درس دیا۔ دونوںبہنوں کا یہی خیال تھا کہ جب اتنا بڑا کا م ہو رہا ہے تو نیک کام سے ہی اس کی شروعات ہونی چاہئے محترمہ شفا مریم کی سہیلیوں کے لئے ایک دن ڈھولکی رکھی گئی جو حیدرآباد کالونی کے لان میں زبردست
 یادگار تقریب بن گئی۔ شادی کی شاپنگ کراچی سے کی گئی اور 7 دنوں تک تقریبات کا سلسلہ جاری رہا جو لوگوں کے لئے خوشیاں لیکر آیا۔2 دن ڈھولکی تھی ۔ ایک دن دلہن والوں کی طرف سے مایوں کی رسم رکھی گئی جبکہ ایک دن دولہا والوں کی طرف سے تقریب کا اہتمام کیا گیا جبکہ ایک دن شفا مریم کی سہیلیوں اور کلاس فیلوز کے لئے مخصوص کیا گیا تھا جو حیدرآباد کالونی کے لان میں رکھا گیا ۔شادی کی تقریب میں اعزہ و احباب کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔شادی کی بات تو 2007ءمیں اس وقت پکی کر دی گئی تھی جب میں یونیورسٹی میں پڑھ رہی تھی۔ 2009ءمیں نکاح ہوا اور کینیڈا کے ویزے کے لئے اپلائی کیا۔2010ءمیںشادی ہوئی۔یہ مکمل طور پر ارینجڈ میرج تھی۔ بزرگوں کا فیصلہ بہترین ہوتا ہے اور تجربے کا کوئی نعم البدل کوئی نہیں ہو سکتا۔
    محترمہ شفا مریم نے بتایا کہ معاشرے کی بہتری کے لئے خواتین کا کردار بھرپور ہوتا ہے چاہے وہ ایک ماں ہو، بیٹی ہو یا بہن ہو۔ شادی کے بعدعورت کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ اسے ایک نئے خاندان کی سربراہی دی جاتی ہے ۔بچے ماں کی تربیت میں ہی پرورش پاتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ ماں تعلیم یافتہ ہو۔ بچپن ہی سے اچھے الفاظ میں بچوں سے بات کی جائے تاکہ وہی عادت وہ اپنائیں۔
    شفا مریم نے کہا کہ والد صاحب سے سیکھاہے کہ محنت کو اپنالو، ہر کام آسان ہوتا جائے گا اور والدہ سے سیکھا کہ رشتوں کو بے لوث محبت دو، ان سے کوئی توقع نہ رکھو۔ جہاں توقعات رکھی جائیں وہاں رشتے میں دراڑ پیدا ہوجاتی ہے ۔
    محترمہ شفا مریم کے بڑے صاحب زادے محمد حسنین اسکول جاتے ہیں جبکہ محمد حنان اسکول جانے کی عمر سے چھوٹے ہیں جبکہ ماہا ابھی 2ماہ کی ننھی گڑیا ہیں۔ شفا مریم نے کہا کہ سب سے اولین فرض ماں پر یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت بہترین کرے، جب بچے بڑے ہوجائیں تو اپنی تعلیم و ہنر سے لوگوں کو فائدہ پہنچائیں۔محترم دلاور کہتے ہیں کہ جب کینیڈا آئے تو کسی میڈ کا ملنا بہت مشکل تھا لیکن شفا مریم نے ہر کام سیکھا اور اب تو وہ ہر کھانا بہترین بنانے لگی ہیں جو انہیں پسند ہے چاہے وہ انگریزی ہو چاہے دیسی یاپھر حیدرآبادی ڈشز ،سب اچھی بنتی ہیں اور لوگ ہمارے گھر کی دعوت تا دیریاد رکھتے ہیں، ذکر کرتے ہیں کہ ہر چیز مزیدار تھی۔ یہ سب انہوں نے اپنے شریک حیات کی خواہش پر کیا کہ انہیں مزیدار کھانے بہت پسند ہیںجو مختلف ممالک کے ہوں۔

 

شیئر: