Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی ایس ایل کی چمک دمک ایک مقام پر ٹھہرگئی ہے

 
  دبئی: پاکستان سپر لیگ کے چوتھے ایڈیشن کا آغاز 14 فروری کو ہورہا ہے لیکن عام تاثر یہ ہے کہ 3 سال گزرنے کے بعد پاکستان سپرلیگ کی چمک دمک ایک مقام پر آ کر ٹھہرگئی ہے ۔پی ایس ایل کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ ہے جو دنیا بھر میں مقبول ہے اور متعدد ممالک میں فرنچائز کرکٹ اس کے ذریعے اپنی جڑیں مضبوط کر چکی ہے۔ شائقین کی اس فارمیٹ میں غیرمعمولی دلچسپی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ برطانیہ جیسے روایت پسند کرکٹ ملک کو بھی اپنے کاونٹی سیزن میں ٹی ٹوئنٹی ایونٹ کو متعارف کروانا پڑا۔ پاکستان سپر لیگ کی مقبولیت کی ایک اور بڑی وجہ اس میں غیرملکی کرکٹرز کی شرکت بھی ہے۔ اگرچہ اس میں آئی پی ایل کے مقابلے کے مشہور کھلاڑی نظر نہیں آتے لیکن اس کے باوجود پاکستان کرکٹ بورڈ اس مرتبہ کھلاڑیوں کے مصروف بین الاقوامی شیڈول کے باوجود متعدد بڑے ناموں کو پی ایس ایل میں لانے میں کامیاب رہا ہے۔ افتتاحی تقریب میں بھی وہی ٹیمیں، وہی کھلاڑی اور وہی فنکار نظر آئیں گے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انتظامیہ کیلئے اس میں کچھ نیا کرنے کیلئے باقی نہیں رہا۔گزشتہ سال پاکستان سپر لیگ کے دوران دبئی اسٹیڈیم شائقین سے مکمل طور پر نہیں بھر سکا تھا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین نجم سیٹھی نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ پہلے ہم تھوڑی بہت ٹکٹیں مفت دے دیتے تھے لیکن متحدہ عرب امارات میں نئے ٹیکس کے نفاذ کے بعد اب یہ ممکن نہیں رہا اور مقامی قوانین کے تحت 10 فیصد سے زیادہ مفت ٹکٹیں نہیں دی جا سکتیں۔ان کا کہنا تھا کہ اس صورتحال کا سب سے بہتر حل یہی ہو سکتا ہے کہ اس لیگ کو جتنا جلد ممکن ہوسکے پاکستان لایا جائے۔سابق کپتان اور پی ایس ایل کے برانڈ ایمبیسڈر رمیز راجہ نے بھی گزشتہ سال اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان سپرلیگ کا انوکھا پن اب سپاٹ ہوتا نظر آرہا ہے اور اگر اسے دبئی اور شارجہ میں منعقد کرنا ہے تو اس کے لیے بہت زیادہ محنت کرنی ہوگی کیونکہ مقامی شائقین اب بہت زیادہ کرکٹ دیکھ کر تھک گئے ہیں۔ پشاور زلمی کے سربراہ جاوید آفریدی کا کہنا ہے کہ پی ایس ایل نے پاکستان کی کرکٹ کو اس وقت سہارا دیا جب وہ انٹرنیشنل کرکٹ سے محروم تھی۔ پہلی لیگ کی کامیابی ہی اگلے سال پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کا سبب بنی اور اس سال8 میچوں کا پاکستان میں انعقاد ہونا ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ جاوید آفریدی کا کہنا ہے کہ تمام فرنچائز مالکان نے پاکستانی کرکٹ کی خاطر اس لیگ میں سرمایہ کاری کی ہے اور جیسے جیسے یہ لیگ پاکستان آئے گی ٹیکس کے معاملات میں فرنچائزز کے لیے آسانیاں پیدا ہوتی جائیں گی۔2 مرتبہ پی ایس ایل جیتنے والی اسلام آباد یونائیٹڈ کے سربراہ علیٰ نقوی کا کہنا ہے کہ پچھلے3 برسوں کے دوران سب نے اس لیگ کو کامیاب کرنے کے لئے ان تھک محنت کی ہے اب کوشش اس بات کی ہے کہ اگر اس لیگ سے کسی کو بہت زیادہ فائدہ نہیں ہو رہا تو نقصان بھی زیادہ نہ ہو۔
کھیلوں کی مزید خبریں اور تجزیئے پڑھنے کیلئے واٹس ایپ گروپ"اردو  نیوز اسپورٹس"جوائن کریں
 

شیئر: