Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں ایک اور تنظیم پر پابندی

کراچی ( صلاح الدین حیدر) پاکستانی حکومت جہاں کہیں اور دہشت گردی میں مشتبہ اسلحہ بردار تنظیموں اور ان کے ارکان پر پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں ان میں اب ایک اور اضافہ کردیا۔ اس کا نام ہے الرحمان ویلفیئر ٹرسٹ آرگنائزیشن جس کے تانے بانے یمن سے ملتے ہیں۔ اسے ملاکر اب ان سب تنظیموں کی تعداد 67 ہوگئی ہے۔یمنی تنظیم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ یمن کی دہشت گرد تنظیم سے تعلق رکھتی ہے۔ سرکاری طور پر کچھ بتایا نہیں گیا ۔
پاکستان کے دہشتگردی کے خلاف کام کرنے والے محکمے نے 13 دسمبر 2018ءتک 60 سے زیادہ دہشتگرد تنظیموں پر پابندیاں عائد کی تھیں۔ اسی سال جنداللہ واحد تنظیم تھی جسے 31 جنوری 2018ءکو دہشتگرد قرار دے کر پابندی سلاسل کردیا گیا، اس کا قائد عبدالمالک ریگی تھا جو 2019ءکے بعد پاکستان میں ظہور پذیر ہوا جب کئی ایک خودکش دھماکے اور اغوا کے واقعات کی اس نے ذمہ داری قبول کی۔جن تنظیموں پر ملک میں پابندی عائد ہے ان میں لشکر جھنگوی، سپاہ محمد، جیش محمد، لشکر طیبہ، سپاہ صحابہ، تحریک اسلامی اور تحریک نفاذ شریعت محمدی کو 2001 اور 2004ءکے درمیان عرصے میں پابندی لگائی گئی، تحریک نفاذ جعفریہ پر 2002ءمیں پابندی لگی۔ القاعدہ کو 2003ءمیں ملت اسلامی، پاکستان اور خادم الاسلام اور اسلامی تحریک پاکستان کو 15 نومبر 2003ءمیں کام کرنے سے منع کردیا گیا ان کے علاوہ مزید 3 تنظیمیں جمعیت انصار، جمعیت الفرقان اور حزب اللہ تحریک، خیرالنساءانٹرنیشنل ٹرسٹ، بلوچستان لبریشن آرمی، اسلامک اسٹوڈنٹس موومنٹ بھی 2006 تک قانون کے لپیٹ میں آگئیں۔ فہرست تو بہت لمبی ہے لیکن افغان جنگ کے آغاز سے لے کر جب سابق سوویت یونین نے 1979ءمیں کابل پر حملہ کیا تھا اور بعد میں امریکہ نے افغانستان پر فوج کشی کی تو پاکستان میں کلاشنکوف اور منشیات کلچر کا آغاز ہوگیا ورنہ اس سے پہلے ان چیزوں کو کوئی جانتا تک نہیں تھا۔ سابق شمال مغربی صوبے جو کہ اب خیبرپختونخوا کہلاتا ہے میں منشیات عام تھی اس کی وہاں وجہ وہاں نشہ آور پودے بہت اگتے تھے لیکن کے پی کے سے آگے ان کا وجود شاذو نادر ہی ہوتا تھا۔ بعد میں دہشت گردی نے پاکستان کو گھیرے میں لے لیا۔خود کش بمباری، عبادت گاہوں کی تباہی، قتل و غارت گری عام ہوگئی، خدا خدا کر کے فوج نے سوات، جنوبی اور شمالی وزیرستان جو کہ قبائلی علاقے تھے میں ملک کو دہشتگردوں سے نجات دلائی، ورنہ لوگ خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگے تھے۔شکر ہے کہ اب کراچی کی رونقیں لوٹ آئی ہیں۔اب سوائے اکا دکا واقعات کے شہر پر سکون ہے، ۔راتوں کو 3 بجے تک سڑکوں پر چہل پہل رہتی ہے۔کاروں کی لمبی قطاریں شاہراہ فیصل اور دوسرے شاہراہوں پر پھنسی نظر آتی ہیں۔ خوف و ہراس کی فضا تقریباً ختم ہوچکی ہے۔
 

شیئر: