Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب پر الزام تراشیوں کا نہ ختم ہونے والا سیریل

ابراہیم محمد بادواد ۔ المدینہ
سعودی عرب” وژن 2030“ کی تکمیل کا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ قومی تبدیلی کا پروگرام بھی نافذ کررہا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے جو ہم ہر روز نئے نئے منصوبوں کا اعلان سن رہے ہیں۔ نئے نئے کارنامے انجام پا رہے ہیں۔ مملکت کے بیشتر علاقوں میں تعمیراتی، ترقیاتی اور صنعتی پروگرام روبعمل لائے جارہے ہیں۔ سعودی عرب کا ٹریلین ریال بجٹ تعمیر و ترقی کے اس عمل کا سرپرست بنا ہوا ہے۔اتنے بڑے بجٹ کا اعلان مملکت کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔ اسی کے ساتھ ساتھ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر سیاسی و اقتصادی اعتبار سے سعودی عرب کی حیثیت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جارہی ہے۔ سعودی عرب متعدد بین الاقوامی معاملات خصوصاً مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے مسائل کی گتھیاں سلجھانے والے فیصلہ سازوں میں اہم شریک بن گیا ہے۔ 
بعض حاسد اور نادان لوگوں کو سعودی عرب کی یہ تمدنی اور ترقیاتی تبدیلی اچھی نہیں لگ رہی ۔ انہیں مختلف سطحوں پر سعودی عرب کو حاصل ہونے والی کامیابیاں اور منظر عام پر آنے والے کارنامے برے لگ رہے ہیں۔ وہ مختلف شعبوں میں رونما ہونے والی تبدیلیاں دیکھ کر نالاں ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ انکی خواہش کے برخلاف ہے۔ یہ انکے اہداف اور انکی آرزوﺅں سے میل نہیں کھاتا۔ یہ انکی فکر یا انکے طریقہ کار سے بھی ہم آہنگ نہیں۔ بعض چاہتے ہیں کہ سب کچھ ان کے اپنے انداز سے ہو اور اُن کا طریقہ کار ہی موثر ہو۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو وہ شاندار سے شاندار کام کی بابت شکوک و شبہات پھیلانے ، فتنے برپا کرنے، دروغ بیانیوں کا طوفان اٹھانے ، افواہوں اور من گھڑت دعوﺅں کا پرچار کرکے انارکی پھیلانے میں لگ جاتے ہیں۔
آخری جھوٹ وہ ہے جو دنیا کی سب سے بڑی کمپنی کے مالک اور دنیا کی مالدار ترین ہستی نے سعودی عرب کے حوالے سے بولا ہے۔ یہ صاحب امریکہ کے بڑے جریدے کے مالک ہیں۔ یہ نیشنل انکوائرر میگزین میں ٹی وی اناﺅنسر کے ساتھ اپنے تعلقات سے متعلق خطوط شائع کرنے کا الزام سعودی عرب پر دھررہے ہیں۔ مذکورہ میگزین کی مالک امریکی میڈیا کمپنی ہے۔سعودی عرب پر الزام یہ ہے کہ اسی نے نیشنل انکوائرر کو مذکورہ کہانی چھاپنے کی ترغیب دی ہے۔ سعودی وزیر مملکت برائے امور خارجہ عادل الجبیر واشنگٹن میں امریکہ کے مشہور چینل کے معروف پروگرام ”قوم کا سامنا کیجئے“ میں اس دعوے کی تردید کرچکے ہیں۔ وہ بتا چکے ہیں کہ سعودی حکومت کا اس سے دور پرے تک بھی کوئی رشتہ ناتہ نہیں۔ انہوں نے مذکورہ دعوے کی تردید کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ یہ مملکت کے خلاف لگائے جانے والے الزامات کے سیریل ہی میں سے ایک ہے۔ فوکس نیوز نے بھی اس امر کی تاکید کردی ہے کہ تمام شواہد ظاہر کررہے ہیں کہ امریکی میگزین میں چھپنے والی کہانی سے سعودی عرب کا کوئی تعلق نہیں۔
سعودی عرب کے خلاف الزام تراشی کا دائرہ افراد تک ہی محدود نہیں بلکہ خود کو مشاورتی ایجنسیوں یا تجزیاتی مطالعات کے مراکز گرداننے والے اور بعض سیٹلائٹ چینلز بھی یہی حرکت کررہے ہیں۔ جان بوجھ کر ایسے سیریل تیار کرکے پیش کررہے ہیں جن میں مملکت پر کوئی نہ کوئی الزام ہوتا ہے۔ دنیا میں آپ کو کہیں کوئی مصیبت ایسی نظر نہیں آئیگی جس کا ذمہ دار سعودی عرب کو نہ ٹھہرایا جارہا ہو۔ دہشتگردی کا واقعہ کہیں بھی ہو اور کوئی بھی کرے، جان بوجھ کر تجزیہ نگار مملکت کے ساتھ اسکا کوئی نہ کوئی رشتہ جوڑ کر پیش کردیتے ہیں۔ کہیں سیاسی انقلاب کی کوشش ہورہی ہو ۔ کہیں اقتصادی کساد بازاری آگئی ہو ، کہیں خلائی گاڑی میں کوئی خرابی پیدا ہوگئی ہو ،ان سب کا ذمہ دار سعودی عرب کو ٹھہرایا جاتا ہے لہذا ہمارا فرض ہے کہ ہم یہ مان کر چلیں کہ جب بھی مملکت میں کسی کارنامے کا اعلان ہوگا ،کوئی نہ کوئی دروغ گو فوراً ہی اسکی چمک دمک کو مٹانے کیلئے کوئی جھوٹ گھڑ کر پیش کردیگا۔ جب بھی مملکت میں کوئی ترقیاتی پروگرام روبعمل لایا جائیگا، اس کا سنگ بنیاد رکھا جائے یا افتتاح ہو، کوئی نہ کوئی الزام سعودی عرب کے سر مڑھنے کا اہتمام بھی ہوگا۔ سچ یہی ہے کہ قافلے کو چلتے رہنا ہے اور سفر جاری رکھنے کیلئے من گھڑت دعوﺅں اور خود ساختہ الزامات کو پس پشت ڈالنے میں ہی عافیت ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: