Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایم کیو ایم نے پھر نئے صوبے کا مطالبہ کردیا؟

کراچی (صلاح الدین حیدر)1970سے لیکر صرف 3ایسے مواقع گزرے ہیں جہاں سندھ میں پیپلز پارٹی کے سواکسی اور سیاسی جماعت نے حکومت نہیں کی۔ 1990سے مختصر عرصے کےلئے بینظیر سے روٹھے ہوئے جام صادق علی یا بعد میں دادو تعلقہ سے تعلق رکھنے والے لیاقت جتوئی یا پھر جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں 5سال تک علی محمد مہر اور ارباب غلام رحیم انتظامیہ کے سربراہ رہے۔ باقی تمام عرصہ ذوالفقار علی بھٹو کی بنائی ہوئی پیپلز پارٹی ہی سندھ میں برسر اقتدار رہی۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔ آصف علی زرداری یا بلاول بھٹو کی سربراہی میں پیپلز پارٹی بلاشرکت غیرے انتظامیہ پر قابض تو ہے لیکن اس کا انداز حکومت خامیوں سے بھرپور نظر آتا ہے۔ ملک میں سب سے پہلے جنرل یحییٰ خان نے 1970میں منصفانہ اور غیر متنازع انتخابات کرائے۔ اس کے بعد 11سال تک ملک میں جنرل ضیاءالحق کا مارشل لاءرہا یا پھر غیر سیاسی اسمبلیاں ہی انتظامیہ کو سنبھالتی رہیں۔ ضیاءالحق کی موت کے بعد 1998میں انتخابات ہوئے تو بینظیر وزیراعظم بنیں۔ پھر نواز شریف اور اس کے بعد مشرف۔ ہر مرتبہ ایم کیو ایم حکومت میں حصے دار رہی ۔ اب کی مرتبہ واقعہ کچھ اور ہے ۔ پہلے 7سال تک تو قائم علی شاہ نے سندھ کے 40فیصد اردو بولنے کو یکسر نظر انداز کیا ۔ کابینہ یا بیورو کریسی میں ان کی نمائندگی صفر رہی حالانکہ آئین میں اردو اسپیکنگ کو 40فیصد شرکت لازمی قرار دی گئی ہے ۔ بلاول کے اصرار پر قائم علی شاہ کی جگہ ایک تعلیم یافتہ ، پھرتیلا مراد علی شاہ وزیراعلیٰ بنا۔ 2018کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کو احساس ہوا کہ اردو بولنے والوں کی نمائندگی کے بغیر حکومت چلانا مشکل ہوگا۔ کابینہ میں سابق کونسلر اور سینیٹر سعید غنی لوکل گورنمنٹ کے وزیر بنے اور بعد میں مرتضیٰ وہاب مشیر اطلاعات لیکن یہ نمائندگی محض آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ افسر شاہی ، پولیس سروس اور میڈیکل یا انجینئرنگ کالجوں میں اردو بولنے والوں کو یکسر نظر انداز کردیا گیا جس سے صوبے میں بے چینی کافی عرصے سے بڑھتی ہوئی ہی چلی جارہی ہے۔ درد کا درماںتو ہوسکتا تھا مگر اس کے واسطے وسیعی القلبی کی ضرورت ہے جو کہ سرے سے ہی ناپید ہے۔ آج بھی وزیراعلیٰ وفاق سے تقریباً روزانہ ہی شکوہ کرتے ہیں کہ سندھ کے محصولات میں سے صوبے کا اس کا حصہ نہیں ملتا ۔ 18ویں ترمیم کے بعد صوبے کے حقوق کی جنگ تو شد ومد سے لڑی جارہی ہے۔ کراچی کو اس کے حصے کی رقم دینے میں جان بوجھ کر تامل کیا جاتا ہے۔ وسیم اختر میئر تو ہیں لیکن برائے نام ۔ ان کے پاس اختیارات ہیں نہ ہی مالی وسائل ۔ پیپلز پارٹی جس چیز کا تقاضہ خود اپنے لئے کرتی ہے وہ دوسروں کو دینے کےلئے تیار نہیں ۔ کراچی میں برا حال ہے ، سڑکیں ٹوٹی پھوٹی، کچرے کے ڈھیر، پانی نہ ہونے کے برابر، اسکولوں کے حالات پر تو رونے کو دل کرتا ہے ۔ دنیا بھر میں مقامی انتظامیہ ، کاو¿نٹی سسٹم وغیرہ کے ذریعے مقامی مسائل حل کئے جاتے ہیں لیکن یہاں وزیراعلیٰ یا سعید غنی نے تمام اختیارات اپنے پاس رکھ چھوڑے ہیں ۔ مرتا کیا نہیں کرتا ، ایم کیو ایم نے جو آج بھی شہری علاقوں میں بڑی حد تک مقبول ہے جھلا کر مطالبہ کردیا کہ اگر شہری علاقوں کے مسائل حل نہ ہوئے تو وفاق سے صوبے کا مطالبہ کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں صوبہ لینا آتا ہے اور لے کر دکھائیں گے۔ ایم کیو ایم کے سینئر رہنما عامر خان نے یہ بات ایک جلسہ عام میں کہی۔ پیپلز پارٹی ظاہر ہے کہ اس کی شدت سے مخالفت کریگی لیکن اگر کوئی تحریک زور پکڑ جائے تو عوامی طاقت کے آگے بڑے سے بڑا حکمران بھی ٹھہر نہیں پاتا ۔ دیکھیںآگے کیا ہوتا ہے۔ 
 

شیئر: