Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عالم آرا ھکا بکا لوگوں کی دشنام طرازیاں سنتی رہی

جب اس نے کچھ غلط کیا ہی نہیں۔ آپ خود سمجھاﺅ اپنے بیٹے کو اور خود روکو ہمارے گھر آنے سے....... ہم اسے منع نہیں کرینگے
مسز زاہدہ قمر۔ جدہ
اسکی آواز سن کر نازو کی ماں بھی آگئی اور پھر تو دونوں نے بڑی مصنوعی اپنائیت سے عالم آرا کو اندر بلالیا اس ماحول میں رہتا ہے میرا نفیس بیٹا!! عالم آرا کا دکھ سے دل رونے لگا جو اپنے جوتوں پر گرد نہیں پڑنے دیتا تھا۔ بیڈ کی چادرپر ایک سلوٹ برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ دھلے ہوئے برتنوں کو دوبارہ دھلوا کر استعمال کرتا تھا۔ وہ اس گندے غلیظ ماحول میں اتنے میلے کچیلے لوگوں کے درمیان کیسے رہتا ہے؟؟ انکا جی چاہا چیخیں مار مار کر روئیں۔
تتلی کی ماں بے ہود ہ سے لباس اور لبوں پر سستی سی لپ اسٹک کی تہہ جمائے خود کو باوقار بنانے کی بھونڈی اداکاری کررہی تھی۔
ہاں جی !! تو بتاﺅ جی !! آپ کیا کھاﺅ گی؟؟ اس نے مہمانداری نبھائی۔
کچھ نہیں.... بس آپ سے دو چار باتیں کرنی ہیں۔عالم آرا نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔
ہاں! ہاں! کیوں نہیں جی!! فرماﺅ جی
بہن! بات یہ ہے کہ مجھے مشرف کے بارے میں بات کرنی ہے۔
ہاں جی!! ہم تو آپ کی راہ دیکھ رہے تھے۔ بھئی برا مت ماننا، آپ لوگ عجیب ہو، جوان بچے کو گھر سے باہر نکال دیا۔ بری بات ہے۔ اگر وہ نازو سے پیار کرتا ہے تو اس میں برا کیا ہے؟ ؟ وہ تو جی !! لڑکا شریف ہے کہ بری راہ پر نہیں گیا اور سیدھا یہاں آگیا.... مگر آپ نے اچھا نہیں کیا.... نازو کے باپ نے ڈھٹائی اور بے غیرتی کی حد کردی!! عالم آرا نے خود پر بڑی مشکل سے قابو پایا۔ میں نے اسے نہیں نکالا وہ خود گھر سے گیا ہے۔ شاید اس نے آپ لوگوں کو نہیں بتایا کہ وہ اپنی تایا زاد سے منسوب ہے اس نے یہ منگنی اپنی پسند سے کی تھی۔ مگر اب اس کا ارادہ بدل گیا۔ بھئی یہ شرفا کا طریقہ نہیں۔ ہم خاندان والوں کو کیا منہ دکھائیں ، آپ لو گ اسے سمجھائیں کہ ہمیں رسوا نہ کرے۔ وہ ان بے حیا اور بد کردار لوگوں سے مدد مانگ رہی تھی جنہوں نے باقاعدہ منصوبہ بناکر مشرف کو ورغلایا تھا۔ شاید ان لوگوں کا ضمیر جاگ جائے!! انہو ںنے سوچا تھا .....۔
آپ لوگ تو پورے ظالم سماج بن گئے۔ دو پیار کرنے والوں کے بیچ کی دیوار مت بنو جی۔ نازو کا باپ اپنی گندی ذہنیت کا مظاہرہ کھلم کھلا کررہا تھا او رہم کیوں اسے سمجھائیں۔ جب اس نے کچھ غلط کیا ہی نہیں۔ آپ خود سمجھاﺅ اپنے بیٹے کو اور خود روکو ہمارے گھر آنے سے....... ہم اسے منع نہیں کرینگے۔ آپ خود منع کرو ......  وہ اب کھل کر سامنے آگیا تھا۔
اللہ کے غضب سے ڈرو بھائی !! کسی کی اولاد کو ورغلا کر کہتے ہو کہ میں اسے روکوں؟؟ اسے غلط راستے پر کیوں ڈال رہے ہو؟؟ کیوں کسی معصوم لڑکی کا حق چھین رہے ہو؟؟؟اب عالم آرا بے بسی سے التجا کررہی تھی۔
آپ کا لڑکا کوئی بچہ تھوڑا ہی ہے جو ہم نے بہکایا ہے اسے آپ لوگوں نے زبردستی تایا کی بیٹی سے باندھ رکھا تھا ۔ اب آپ ہمیں الزام دے رہی ہو۔ ہماری بیٹی اس سے پیار کرتی ہے وہ بھی اسے چاہتا ہے ۔ ہماری بیٹی بے حیا نہیں۔ یونیورسٹی میں لڑکوں کے ساتھ پڑھتی ہے۔ 
بے شرم، بے غیرت...نازو کی ماں بری طرح چیخ چیخ کر نرمین کو گالیاں دینے لگی۔
کتنا بے شرم باپ ہے بیٹی کو لڑکوں کیساتھ پڑھا رہا ہے۔ نازو کا باپ بھی بیوی کے ساتھ شامل ہوگیا۔ عالم آرا ہکا بکا ان لوگوںکی دشنام طرازیاں سن رہی تھی۔ یہ بے شرم، بدکردار اور اخلاق باختہ لوگ کس طرح نرمین جیسی فرشتہ لڑکی پر الزام لگا رہے تھے۔ یہ یعنی شرم کا قبرستان ہے میں یہاں غلط آئی ہوں ، بھائی !! واقعی نرمین کا باپ بے شرم ہے جو اسے لڑکوں کے ساتھ پڑھا رہا ہے اسے چاہئے تھا اسے لڑکوں اور مردوں کے بیچ میں ناچنا سکھاتا۔ شکریہ آپ لوگوں کا اور اتنی عزت دینے کا ۔ وہ تیزی سے کہہ کر باہر نکل گئیں۔ پیچھے تتلی کی زہریلی آواز ا ور ہنسی سنائی دے رہی تھی۔
بڑی بی سے برداشت نہیں ہورہا۔ ہمارا پیار میرا نصیب ہے جو مجھے مشرف ملا۔ میرے نصیب کو چھینے گی بڑھیا!! وہ مذاق اڑا رہی تھی۔ عالم آرا تھکے تھکے انداز میں آگے بڑھ رہی تھی۔ وہی شکستہ چال، وہی ہارا ہوا انداز.....فیکے نے دیکھا اور اسکی آنکھوں میں دھند سی چھا گئی وہ آنکھیں ملنے لگا۔
پتہ نہیں کیا پڑ گیا آنکھ میں؟ بڑی تکلیف ہورہی ہے۔ اس نے پاس کھڑے گاہک سے کہا اور آنکھوں کا پانی رول سے پونچھنے لگا۔
٭٭٭٭٭٭٭
 
 
 

شیئر: