Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب اور پاکستان، ایران اور ترکی

عبدالرحمن الراشد ۔ الشرق الاوسط
شورش زدہ علاقے میں اتحاد ناگزیر ہے۔ پاک سعودی تعلقات کا تقابل نہ تو قطر اور ترکی کے اتحاد سے کیا جاسکتا ہے اور نہ ایران کی جانب سے عراق کو اپنے کیمپ میں شامل کرنے کی کوششوں سے اُسے جوڑا جاسکتا ہے لہذا سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا دورہ پاکستان جو آج مکمل ہوجائیگا۔ پیچیدہ سیاسی عمل کابنیادی حصہ ہے۔
کس کو یہ گمان تھا کہ عمران خان تمام پاکستانی قائدین کی صفوں سے نکل کر بذات خود سعودی عرب کےلئے چشم برا ہونگے۔ یہ سیاسی موسم کی حیرت انگیز تبدیلی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جولائی 2019 ءسے پاکستان کے نئے وزیراعظم کی کارکردگی نے سب لوگوں کو ششدر کرد یا ہے۔ وہ سب کےلئے کھل گئے ہیں۔ انہوں نے ہم سب کی توقعات کے برعکس تعاون کی خواہش اور بہترین جذبے کا بھرپور اظہار کیا ہے۔ انتخابات سے قبل اور اسکے دوران جو کچھ کہا گیا تھا وہ اس سے مختلف نظر آرہے ہیں۔ عمران خان عالمی برادری کے سامنے اسٹراٹیجک سیاستد ان کے طور پر ابھر کرسامنے آئے ہیں۔ وہ ملکی اور بیرونی سیاسی سودے بازیوں سے بالا ہوکر ملک کے اعلیٰ مفاد کو ترجیح دے رہے ہیں ۔ سعودی عرب پاکستان کیلئے اہم ملک ہے۔ پاکستان میں سعودی عرب کی عوامی مقبولیت کا مقابلہ کوئی اور ملک نہیں کرتا۔ دونوں ملک سیاسی ، انسانی اور اقتصادی تعلقات قدیم زمانے سے استوار کئے ہوئے ہیں۔ جس دن سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے تب سے سعودی عرب اور پاکستان سرد جنگ کے دوران انتہائی اہم کردارادا کرتے رہے ہیں۔ دونوں نے جنوبی اور مغربی ایشیا میں کمیونزم کے خطرات کے خلاف اتحاد کی دیوار قائم کی۔ پاکستان واحد ملک ہے جس کی افواج طویل عسکری تعاون کے تحت سعودی عرب میں موجود ہے۔پاکستان سعودی عرب کی مسلح افواج کی تربیت اور تقویت میں زبردست حصہ لیتا رہا ہے۔ اسے علاقائی خطرات کے خلاف محاذ کا عنوان دیا گیا۔ سعودی عرب نے پاکستان کو مضبوط بنانے میں اہم کرداراد ا کیا۔ اسٹراٹیجک ہتھیا ر سے آراستہ ہونے میں بھی مملکت نے پاکستان سے تعاون کیا۔
ایرانی انتہائی جوش و خروش کے ساتھ یہ آرزو کررہے تھے کہ عمران خان پاکستان کی پہچان بدل دیں گے۔ یہ بات خاص طور پر اس لئے بھی کہی جارہی تھی کہ مملکت کیساتھ پاکستان کے تعلقات ماضی جیسے مضبوط نہیں رہے تھے تاہم سعودی ولی عہد نے وزارت دفاع کا قلمدان سنبھالنے اور پھر ولی عہد بننے کے بعد سے پاکستان میں خصوصی دلچسپی لی۔ اس تناظر میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ پاکستان کو محض محنتی مزدور فراہم کرنے والے ملک اور سعودی برآمدات کی منڈی کے طور پر دیکھنا درست نہیں۔ پاکستان ایسے وقت میں جبکہ گزشتہ صدی کے اواخر تک والے بین الاقوامی طور طریقے اور حساب کتاب بدل گئے ہیں، علاقے کی انتہائی اسٹراٹیجک طاقت ہے۔ ایسے وقت میں جب ترک اور ایرانی اور انکے ساتھ مل کر قطر ایک اتحاد تشکیل دے رہے ہیں جس کا ہدف سعودی عرب جیسے علاقائی ممالک کی ناکہ بندی ہے، پاکستان انتہائی اہم ہوگیا ہے۔ اس کے ساتھ خصوصی تعلق استوار کرنا اشد ضروری ہوگیا ہے۔ اس اتحاد کا مقصد معاملات کو محاذ آرائی کی جانب لیجانا نہیں بلکہ محاذ آرائی سے بچانا ہے۔ اسکا مقصد سعودی عرب اور خلیج کے ممالک پر سیاسی اثر و نفوذ تھوپنے کی کوششیں روکنا ہے۔ اسکا مقصد پاکستان اور ہندوستان کی بڑی بندرگاہوں پر ایران کے تسلط کو روکنا ہے۔ یہ بندرگاہیں بحر عرب پر واقع ہیں اور خلیج کے سمندر سے بیحد قریب ہیں۔ چین اس خطے کو عظیم اقتصادی منصوبے کا حصہ بنانے کا خواہاں ہے۔ 
حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی قیادت نے دونوں ملکوں کے درمیان سابقہ تعاون کے نئے وسیع افق کھولنے کا عزم ظاہر کیا۔ شہزادہ محمد بن سلمان کا دورہ فریقین کے درمیان ہونے والے اسی نوعیت کے مذاکرات کی بنیاد پر ہورہا ہے۔ پاکستان کیساتھ تعلق نئے مرحلے میں منتقل ہوگا۔ دونوں بڑی علاقائی طاقتیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایران نے اس دورے پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔ ایک دن قبل ہی ایران نے پاکستانی حکومت پر الزام لگایا کہ وہ بلوچستان سے ایران پر حملوں میں مدد دے رہا ہے۔ عمران خان کی حکومت نے اس الزام کا جواب ہوشمندی کے ساتھ یہ کہہ کر دیا کہ حکومت پاکستان ایران کیساتھ سیکیورٹی شعبے میں تعاون کیلئے تیار ہے او رایران کے دعوﺅں کی حقیقت اجاگر کرنے کیلئے خصوصی ٹیم بھی بھیج سکتی ہے۔ جہاں تک جوابی اتحاد کا تعلق ہے، مثال کے طور پر قطر، ترکی اور ایران کا اتحاد تو اس حوالے سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ سیاسی مسائل کے سوا ان تینوں فریقوں کے پاس کچھ کرنے کیلئے نہیں۔ اس قسم کا اتحاد عبوری مصلحتوں پر قائم ہوتا ہے اور یہ دیرپا نہیں ہوتا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: