Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فوجی معاہدہ کریں گے تو ایران کے ساتھ تعلقات متاثر ہونے کا خطرہ ہو گا

خرم شہزاد
 
 اردو نیوز، اسلام آباد 
 
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اتوار کے روز جب نور خان ائر بیس پر اترے تو اپنے ہمراہ دہایئوں پر مشتمل پاک سعودی تعاون اور بھائی چارے کا عظیم الشان ماضی بھی لائے۔
اور پیر کی شب جب وہ اسی فضائی اڈے سے محو پرواز ہوئے تو ان کے ساتھ دونوں اسلامی ملکوں کے تعلقات بھی نئی رفعتوں پر پہنچ گئے۔
ان کے اس دورے میں ہونے والے 20 ارب ڈالر سے زائد معیشت، توانائی، ثقافت اورکھیل  کے شعبوں میں تعاون کے معاہدے اور دو ہزار سے زائد قیدیوں کی رہائی تو ایک طرف، دونوں ممالک کی قیادتوں نے خطے اور دنیا میں بدلتی ہوئی صورتحال کے تناظر میں باہمی تعاون کے جو عہد کیے ہیں وہ مستقبل میں انتہائی دور رس نتائج مرتب کریں گے اورعالمی سیاست پر بھی گہرے نقوش چھوڑیں گے۔
شہزادہ محمد بن سلمان کے دورے نے دونوں ممالک کے درمیان  2015   میں یمن میں فوجی کاروائی کے موقع پر پیدا ہونے والی سرد مہری بھی گرم جوشی کے نئے ولولے کے نیچے کہیں دفن کر دی ہے اور ان کی قیادتوں کو ایک ایسا نایاب موقع فراہم کیا ہے جس کو استعمال میں لاتے ہوئے وہ پورے خطے  کی رہنمائی کر سکتے ہیں۔ جس کا سعودی ولی عہد نے برملا اظہار بھی کیا۔
  • تعلقات کی نئی نسل تک وسعت
قائد اعظم یونیورسٹی کے سکول آف پالیٹکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر نذیر حسین کہتے ہیں کہ شہزادہ محمد بن سلمان کا دورہ نہ صرف یہ کہ تعلقات کی نئی سمت متعین کرے گا بلکہ ان کو مزید وسعت دے گا۔
''دونوں ملکوں کے تعلقات اورزیادہ مضبوط ہوں گے اور سب سے  بڑی بات یہ ہے کو سعودی عرب کی جو نئی نسل ہے، اس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات استوار ہو رہے ہیں اور بھرپور طریقے سے آگے بڑھ رہے ہیں۔''
 لیکن کیا دونوں  ملک اس موقعے کا درست انداز میں ادراک کررہی ہیں یا محض وقتی مجبوریوں کے تحت یگانگت کے گیت گانے پر مجبور ہوئی ہیں اور کیا ان کے مابین طے پانے والے معاہدے خطے کی دوسری طاقتوں کوعدم تحفظ کا احساس دلا کرتذویراتی توازن بگاڑنے کا باعث بنیں گے یا پاکستان کے دہانے پر افغانستان میں رونما ہونیوالی نئی تبدیلیوں کو متاثر کریں گے؟ ان سوالات کے جوبات مستقبل قریب میں ملیں گے۔
  • توازن کیسے قائم رکھا جائے؟
سینیئر تجزیہ نگار ڈاکٹر مہدی حسن کہتے ہیں کہ سعودی عرب اور ایران دونوں سے تعلقات نبھانا پاکستان کے لیے پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے۔
''بہت  مشکل ہے پاکستان کویہ کہ توازن کس طرح قائم رکھا جائے۔ کیونکہ سعودی عرب اور ایران کے تعلقات جو ہیں مشرق و سطیٰ میں وہ کوئی خوشگوار تعلقات نہیں ہیں۔  لہٰذا  پاکستان  کے لیے یہ مشکل درپیش ہے کہ ایران پاکستان کاقریبی ہمسایہ بھی ہے۔ اس کیلیئے توازن قائم کرنا سعودی تعلقات اور ایران کے تعلقا ت میں وہ بہت ضروری ہے۔''
انھوں نے کہا کہ 'سعودی عرب کی جو فوجی کاروائیاںہیں ایسے علاقے میں جہاں ایران اور وہ ایک دوسرے کا سامنا کر سکتے ہیں اس میں ملوث نہ ہو پاکستان عملی طورپر، کوئی ایسا بیان فوج کے حوالے سے یا ملٹری پالیسی کے حوالے سے نہیں  دینا چاہیئے جس سے ایران کے ساتھ اختلافات بڑھ جائیں اور ساری دنیا کو نظر آنے لگیں۔'
ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا تھا کہ پاکستان ضرورت پڑنے پرسعودی عرب کی  فوجی  مدد کر سکتا ہے  ''جیسا   کہ زوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں پاکستان نے تربیت کیلیئے  فوج بھیجی تھی اور فوجی معاہدہ بھی تھا '' لیکن اعلانیہ  ایسا کرنے سے  یا ''فوجی معاہدہ کریں گے یا کوئی ایکٹویٹی کریں گے تو اس سے ایران کے ساتھ تعلقات متاثر ہونے کا خطرہ ہو گا۔ '' 
بھارت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پاکستان کو سعودی ولی عہد سے بھارتی دورے  پراپنے من پسند بیان کی  توقع نہیں کرنی چاہیے کیونکہ بھارت ایک اہم ملک ہے اوراس کو نظر انداز نہیں کیاجا سکتا۔
  • ’ابھی تو صرف معاہدے ہیں‘
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز سے وابستہ تحقیق کار انعم فاطمہ سمجھتی ہیں کہ دونوں ملکوں کے  مابین  معاہدوں کی افادیت کے جائزے کے لیے ابھی انتظار کرنا چاہیے۔
''یہ صرف یادداشتیں ہیں،  ہمیں ان کی تفصیلات کا انتظار کرنا چاہیے۔  اس طرح کی رابطہ کمیٹیاں بھی بہت بنتی ہیں۔ ہم اتنے پر امید نہیں ہو سکتے، ایک حقیقت پسند کے طور پر ہمیں انتظار کرنا اور دیکھنا چاہیے۔
  • ’معاہدے طالبان ڈیل کا صلہ ہے‘
کراچی کے انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن میں سماجی سائنس کی پروفیسر ڈاکٹر ہما بقائی کہتی ہیں کہ معاہدوں کی یہ نوازشات طالبان سے مذاکرات کروانے کا انعام ہے۔
''یہ معاہدے امریکہ سے بہتر ہوتے تعلقات کے عکاس ہیں، اس کے بدلے میں سعودی سکیورٹی کی ذمہ داری اٹھانے کی بات ہورہی ہے۔ یہ معاہدے طالبان ڈیل کا ریوارڈ بھی ہیں۔'' 
 

شیئر: