Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مشترکہ خاندانی نظام محبتیں بٹورنے کا بہترین ذریعہ ہے، شبنم رﺅف

اعتبار کے رشتوں میں دراڑیں نہیں آنی چاہئے، سسرال میں میکے سے بڑھ کر محبت ملی،جس طرح ہر کامیاب مرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اسی طرح ہر کامیاب عورت کے پیچھے بھی کوئی مرد ہوتا ہے، اردونیوز کو انٹرویو
عنبرین فیض احمد ۔ ینبع
عورت یوں تو 4 حرفی لفظ ہے جسے سننے میں ایک لفظ ہی لگتا ہے لیکن وہ مصور کائنات کا حسین ترین شاہکار ہے۔ عورت کے دم سے ہی اس جہاں میں رونق قائم ہے۔ اسے ہم مجسم پیکر وفا، محبت و ایثار کی دیوی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ یعنی مشرقی عورت وفا، ایثار، قربانی ، فرماں برداری، تحمل مزاجی، سلیقہ شعاری اور خدمت گزاری میں یکتا ہوتی ہے۔ اس لئے عورت کے بارے میں مختلف مفکرین نے اپنی اپنی آراءپیش کی ہے جس میں کسی نے اسے وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ کہا تو کسی نے زندگی کے حسین ترین راز کو عورت کا نام دیا تو کسی نے عورت کی تمام خوبیوں کا اسے مجموعہ کہا ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ عورت کے خمیر کو وفا، محبت، ایثار اور قربانی کے جذبوں سے گوندھا گیا ہے۔ عورت بنی نوع انسان کا لازمی حصہ ہے صنف نازک ، گلاب کی ایک شگفتہ کلی اورشفاف پانی کے چشمے کی مانند ہے اسلئے اسکا پہلا روپ ہی رحمت ہے جو بیٹی بن کر پورے خاندان کے دلوں پر راج کرتی ہے۔ بہن بن کر بھائی کی سچی اور مخلص دوست اور پھر بیٹی بن کر ماں کا بازو بن جاتی ہے۔
 اگر بیوی کی حیثیت سے دیکھا جائے تو اس کا وجود ہی شوہر کی تصویر کائنات میں اپنائیت و پیا ر اور شوہر کی خوشنودی اور اسکی دلجوئی کیلئے اپنی زندگی کے دھارے تک تبدیل کرلیتی ہے۔ جو اپنے پیار، مودت اور اعتبار کے رنگ سے اپنے شوہر کے آنگن کو مہکاتی ہے اور شریک سفر کے سامنے اپنے وجود کو مٹا ڈالتی ہے۔ اسی کیلئے سنورتی، نکھرتی ہے۔ عورت کے وجود سے گھر اور کائنات کے تمام رنگ کی تصویر کی دلکشی میں اضافہ ہوتا ہے جس سے زندگی قابل رشک ہوجاتی ہے۔ عورت کی ذات میں کائنات کے تمام رنگ دکھائی دیتے ہیں یوں کہا جاسکتا ہے کہ عورت اس روئے زمین پر قدر ت کا انمول تحفہ ہے۔ 
 یہ ایک ایسی ہستی ہے جو اپنے پورے خاندان کیلئے راحت و سکون اور طمانیت کا باعث ہوتی ہے۔ اپنی خوبیوں کی وجہ سے اینٹ اور پتھر سے بنے مکان کو وہ خوبصورت دھنک رنگ میں بدل دینے میں مہارت رکھتی ہے۔ انہی خصوصیات کی حامل ایک شخصیت جو گوناگوں صلاحیتوں کی مالک ہیں آج ہوا کے دوش پر اردونیوز کی مہمان ٹھہری ہیں۔ آپ کی ملاقات شبنم رﺅف مغل سے کراتے ہیں۔
محترمہ شبنم رﺅف مغل کہتی ہیں کہ میری پیدائش اسلام آباد کے ایک نواحی گاﺅں کوری شہر میں ہوئی۔ میں اپنے گاﺅں کے بارے میں بتاتی ہوں کہ کوری شہر ایک تاریخی گاﺅں ہے اور برصغیر پاک و ہند کی تقسیم سے پہلے یہ بہت بڑا تجارتی مرکز ہوتا تھا۔ ہمارے آباﺅ اجداد شروع سے ہی یہاں کے رہائش پذیر تھے۔ میں نے اپنی ابتدائی تعلیم یعنی میٹرک تک تعلیم اسی گاﺅں کے گورنمنٹ گرلز اسکول سے حاصل کی۔ اس کے بعد انٹرمیڈیٹ اور بی اے کے امتحانات بطور پرائیویٹ طالبہ کے دیئے ہیں۔3 بھائی اور 2بہنیں ہیں۔ میں اپنے گھر میں پہلی اولاد تھی اس لئے لاڈلی بھی تھی۔ 
میرے والد صاحب کافی عرصے تک روزگار کے سلسلے میں تنہا سعودی عرب میں مقیم تھے اور ہم سب بھائی بہن پاکستان میں رہے تھے لیکن اسکے بعد میرے والد نے پاکستان واپس آکر اپنا کاروبار شروع کیا یعنی بوتیک کا بزنس شروع کیا اور یوں انہیں دیکھ کر میرے اندر بھی فیشن ڈیزائننگ کا جذبہ پیدا ہوا۔میں نے باقاعدہ انکی شاگردی میں یہ کا م سیکھااور پھر بعد میں انکے ساتھ مل کر ان کے کام کو بڑھاوا دینے میں مدد کرتی رہی۔ یعنی بوتیک کے سارے انتظامی امور سے لیکر اکاﺅنٹس تک کی ذمہ داری میری تھی اور یوں میں ڈیزائن کے ساتھ بوتیک کی پوری طرح دیکھ بھال کرتی تھی۔ 
شبنم رﺅف صاحبہ کہتی ہیں کہ میں اپنے تین بھائیوں میں سب سے بڑی ہوں اس لئے والدین کے قریب بھی ہوں ۔ بچپن میں عام بچوں کی طرح تھی مگر شرارتی بالکل نہ تھی۔ پڑھائی کرتی اور جو بھی وقت ملتا گھر کے کاموں میں امی کا بھی ہاتھ بٹایا کرتی ۔ میرے والد بہت ہی محنتی تھے۔ اپنے خاندان کی ضروریات کو پورا کرنا کچھ آسان نہیں ہوتا۔ میں نے ان کو محنت اور انکی بے لوث کاوشوں کو بڑے قریب سے دیکھا اور اس حقیقت کا ادراک مجھے اس وقت ہوا جب شفقت پدری جیسا بے لوث جذبہ ہے جو ماں کی ممتا کی طرح اولاد پر ہمہ وقت نچھاور ہوتا چلا جاتا ہے۔ اپنی شبانہ روز مشقتوں کا صلہ اور اجرت دونوں ہی اپنی اولاد پر خرچ کرتا اور صلے میں کچھ نہیں مانگتا۔ وہ اپنے خاندان کی کفالت نہایت ہی احسن انداز میں پوری کرنے کی لگن میں رات دن ایک کردیتا ہے اور پھر اسکی شفقت کے مضبوط حصار میں اولاد خود کو محفوظ سمجھنے لگتی ہے۔ یہی ہوتی ہے باپ کی محبت۔
میری شادی میٹرک کرنے کے فوری بعد 13ستمبر 1988ءکو بڑی خالہ کے بیٹے سے ہو گئی۔ یوں لگتا ہے کہ میکے میں گزرے حسین دور پلک جھپکتے ہی گزر گئے اور میں بیاہ کر عبدالرﺅف مغل کے آنگن میں آگئی گو کہ میں آگے اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہتی تھی لیکن گھر کے بڑوں کے فیصلوں کے آگے سر تسلیم خم کرنا پڑا مگر میرے شوہر نے میری پڑھائی کے سلسلے میں کافی تعاون کیا۔ انہیں تعلیم کی اہمیت کا بخوبی علم ہے اور یہ بھی معلوم تھا کہ مجھے مزید پڑھائی کا شوق ہے۔ انہوں نے پہلے دن ہی کہہ دیا تھا کہ ہم اپنی پڑھائی کو جاری رکھیں اور اس سلسلے میں شوہر نے میرا بھرپور ساتھ دیا اور یوں انکی مدد او ررہنمائی سے میں نے انٹرمیڈیٹ اور پھر بی اے کے امتحانات پاس کئے اور آج میں زندگی میں جس مقام پر ہوں وہ سب ان ہی کی رہنمائی اور تعاون کی بدولت ہے۔ چونکہ خاندان کی پہلی بہو تھی اسلئے شادی بھی بڑی دھوم دھام سے ہوئی اور الحمد للہ سب سے بہت اچھے تعلقات بھی رہے۔ مجھے خوشی ہے کہ سسرال میں میکے سے بڑھ کر محبت ملی وہی مشترکہ خاندانی نظام وہاںتھا۔ اسلئے سبھی مجھ سے شفقت سے پیش آتے تھے۔ میری زندگی کا خوشگوار لمحہ وہ تھا جب میرے شوہر عبدالرﺅف مغل کو انگلینڈ کی یونیورسٹی میں الیکٹریکل انجینیئرنگ میں داخلہ مل گیا۔ شادی کے تقریباً ایک یا 2سال بعد انگلینڈ چلے گئے اور پھر رب ذوالجلال نے مجھے بہت بڑی خوشی سے نوازا جو میرے بڑے بیٹے رمیز احمد مغل کی صورت میں تھا۔ جب میرے ہاں بیٹا ہوا تو اس نے مجھے کافی مصروف کردیا اسی دوران میرے شوہر اپنی تعلیم مکمل کرکے واپس آگئے پھر 1998ءکو میرے شوہر عبدالرﺅف کو سعودی عرب میں ملازمت مل گئی اور یوں ہم لوگ سعودی عرب کے شہر ریاض آگئے۔ مجھے بچپن سے ہی سعودی عرب آنے کا بڑا ارمان تھا کیونکہ ایک وجہ تو یہ تھی کہ میرے والد صاحب یہاں کافی عرصے سے ملازمت کرتے رہے اور پھر دوسری وجہ یہ تھی کہ میرے ساس ، سسر ہر سال باقاعدگی سے حج اور عمرہ کی ادائیگی کرنے کیلئے یہاں آتے لہذا ان کے ہاں کی باتیں سن کر میرے اندر بھی کافی اشتیاق پیدا ہوگیاتھا کہ کاش میں یہ جگہیںآسانی سے دیکھ سکوں جب میرے شوہر کی ملازمت سعودی عرب ہوچکی تو میں اپنے بچوں کے ساتھ اللہ کے فضل و کرم سے یہاں آگئی۔
کہتے ہیں کہ ہر مشکل اور پریشانی کے بعد انسان کو راحت نصیب ہوتی ہے جب میں یہاں آئی تو ایک طرف تو یہاں آنے کی کوشش لیکن دوسری جانب تنہائی اور اکیلا پن مجھے کھائے جارہا تھا۔ شروع شروع میں بہت ہی عجیب سا محسوس ہورہا تھا کیونکہ پاکستان میں ایک جوائنٹ فیملی میں رہتی تھی ہر وقت گھر میں رونق لگی رہتی تھا اور پھر بالکل خاموشی۔ آہستہ آہستہ یہاں اور لوگوں سے دوستی ہونے لگی نئے دوست بنتے چلے گئے۔ خوشی اور تہواروں میں ، میں ایک دوسرے کے گھروں میں جانے لگی اور پھر مختلف تقریبات کے مواقع پر آہستہ آہستہ اپنوں سے دوری کا احساس بھی کم ہونے لگا پھر میں بھی اس ماحول میں ڈھلنے لگی۔ مجھے وہ دن آج بھی اچھی طرح سے یاد ہے بلکہ ہمیشہ میرے نہاںخانوں میں کہیں نہ کہیں موجود رہیگا کہ جب ہم نے پہلی بار عمرہ ادا کیا تھا۔ ہماری جب پہلی نگاہ خانہ کعبہ پر پڑی تھی وہ احساسات بھی ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں۔
محترمہ شبنم رﺅف کہتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے 3 اولادوں سے نوازا ہے جس میں 2بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ میرا بڑا بیٹا رمیز احمد مغل، بیٹی ماریہ رﺅف ۔ یہ دونوں میرے بچے اسلام آباد کے اسپتالوں میں ملازمت کرنے کے ساتھ اسپشلائزیشن بھی کررہے ہیں جبکہ سب سے چھوٹے بیٹے صائم رﺅف نے اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انجینئرنگ کا شعبہ اپنایا ہے اور سعودی عرب میں ملازمت کررہا ہے۔
محترمہ شبنم کہتی ہیں کہ میرے دونوں بیٹے ڈاکٹر رمیز اور انجینئر صائم دونوں اللہ کے فضل وکرم سے حافظ قرآن بھی ہیں اور میرے بچوں کی شروع سے اسکولنگ بھی سعودی عرب میں ہی ہوئی ہے۔
محترمہ شبنم رﺅف کہتی ہیں کہ اپنے بچوں کی شروع سے لیکر آخر تک اسکول کے کام اور پھر قرآن حفظ کروانے کا کام باقاعدگی کے ساتھ یہ تمام ذمہ داریوں کی ادائیگی میں اپنے بچوں کی مدد کرتی او رالحمد للہ میرے تینوں بچے پہلی کلاس سے لیکر ڈاکٹری ہو یا انجینئرنگ ہمیشہ ہی نمایاں رہے۔ اور ماشاءاللہ تینوں ہی گولڈ میڈلسٹ ہیں۔ ڈاکٹر ماریہ کا شمار تو اپنے کالج کی ہونہار طالبات میں ہوتا ہے۔ اس نے اپنی ڈاکٹری کے تعلیمی کیریئر میں 17گولڈ میڈل حاصل کئے ۔ میں نے الحمد للہ حتی الامکان اپنی بیٹی کو تعلیم کے ساتھ گھر داری بھی سکھائی جب تک سعودی عرب میں بچے تعلیم حاصل کرتے رہے ہم سب ساتھ رہتے تھے مگر پھر جب وہ پاکستان پڑھنے چلے گئے مجبوراً مجھے بھی وہاں انکے ساتھ جانا پڑا جب پاکستان واپس آنا پڑا تو اسلا م آباد میں ہمارا ایک اسکول چل رہا ہے۔ اس اسکول کی دیکھ بھال خود شرو ع کردی یعنی اس اسکول کے تمام انتظامی امور کا کام میں نے خود سنبھال لیا اور یوں میرا وقت بھی اچھا گزرنے لگا اور ساتھ میں نے اسکول کو اپ گریڈ بھی کیا۔ آج الحمد للہ گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ اسکول کی بھی ذمہ داریوں کو بڑے ہی احسن انداز میں چلا رہی ہوں اور پھر انسان کو کچھ زندگی میں کرنے کی لگن اور حوصلہ ہو تو انسان کے اندر ہمت اور جذبہ خودی پیدا ہوجاتا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ میں نے اسکول کے انتظامی امور کی ذمہ داری سنبھال لی ہے تب سے اسکول کے بچے بھی 100 فیصد نتائج دکھا رہے ہیں۔ یہاں یہ بات میں بڑے وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ جس طرح ہر کامیاب مرد کے پیچھے کسی نہ کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اسی طرح ہر کامیاب عورت کے پیچھے بھی کوئی نہ کوئی مرد ہوتا ہے۔ خواہ وہ اسکا بھائی، والد ہو یا شوہر ہو۔ کیونکہ یہ مردوں کا معاشرہ ہے شاید یہی وجہ ہے کہ آج میں جس مقام پر کھڑی ہوں وہ سب میرے شوہر کی حوصلہ افزائی اور وسیع النظری کی وجہ سے ہے۔ ورنہ شاید میں یہ سب کچھ نہ کر پاتی یا اتنی کامیاب ثابت نہ ہوتی۔ اگر میرے شوہر کاتعاون اور رہنمائی ساتھ نہ ہوتا تو میں کچھ بھی نہ ہوتی۔ انہوں نے پہلے دن سے آج تک ہر قدم پر اور ہر معاملے میں میری رہنمائی کی، میری حوصلہ افزائی کی اور مجھے ہمت دی اور سب سے بڑھ کر مجھ پر بھروسہ کیا جسکی وجہ سے مجھ میں حوصلہ پیدا ہوا۔محترمہ شبنم رﺅف کہتی ہیں کہ یہ مردوں کا معاشرہ ہے اور اس معاشرے میں عورت کو عزت مرد ہی دلاتا ہے اگر شریک سفر قدر کرنے والا ہو تو یقینا زندگی میں کافی ساری چیزیں سہل ہوجاتی ہیں۔ شبنم رﺅف کے شوہر عبدالرﺅف نے کہا کہ میری شریک سفر بہت نیک، سلجھی ہوئی خاتون ہیں۔ ازدواجی رشتے میں ہم آہنگی بہت ضروری ہے ایک دوسرے کا خیال رکھنے سے ہی ازدواجی رشتے میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔ شبنم نہ صرف ایک اچھی بیوی ، بہو اور اپنے بچوں کیلئے اچھی ماں بھی ثابت ہوئی ہیں وہ اپنی ذمہ داریوں میں توازن رکھنا جانتی ہیں اسی لئے وہ بچوں پر بھرپور توجہ بھی دیتی ہیں۔ جس کی وجہ سے آج میرے تینوں بچے اس مقام پر ہیں۔وہ ہر رشتہ کی نزاکت کو سمجھتی ہیں اور رشتوں کو ساتھ لیکر چلتی ہیں۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ازدواجی زندگی کی گاڑی کو بغیر ہچکولوں کے چلنا چاہئے اسکی رفتار میں کمی نہیں آنی چاہئے کیونکہ والدین کے باہمی روابط کے اثرات اولاد پر پڑتے ہیں اور پھر ان والدین کی اولاد نفسیاتی کشمکش کا شکار رہتی ہے۔ اعتبار کے رشتوں میں دراڑیں نہیں آنی چاہئے۔شبنم رﺅف نے کہاکہ مشترکہ خاندان میں رہنے کے بڑے فوائد ہوتے ہیں۔ میں یہ کہنا چاہوں گی کہ اکٹھے رہنے میں ہی فائدہ زیادہ ہے یا یوں کہئے کہ آج کے دور میں ساتھ رہنا محبتیں بٹورنے کا بہترین ذریعہ ہے بچوں کی تربیت میں دھیان اور ننھیالی رشتہ داروںکی آمیزش ہوتی ہے۔ اس لئے جوائنٹ فیملی کے بچے زیادہ مودب ہوتے ہیں اور میں سمجھتی ہوں کہ یہ تربیت کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔گھر ایک چھوٹی سی سلطنت ہوتا ہے جس میں ہر مزاج کے لوگ ہوتے ہیں اور ایسے بچے کو بچپن ہی سے لوگوں سے ملنا جلنا آجاتا ہے۔
شبنم رﺅف کے شوہر نے کہا کہ میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میں نے زندگی کے ہر زاویہ میں خواہ وہ گھریلو ہو یا پھر بچوں سے متعلق ہو یا پھر اسکول سے ہمیشہ دیانتداری ، ایمانداری اور محنت سے ہی کام کیا ہے اور جس کا نتیجہ اللہ کریم نے مجھے ا یک پرسکون گھریلو زندگی عطا کی اور کامیاب ترین بچوں اور نیک کامیاب شریک سفر کی صورت میں مجھے نوازا ہے۔ جب خاتون خانہ اپنی صلاحیتوں کو مثبت انداز میں استعمال کرتی ہیں تو شوہر کی کامیابی میں چار چاند لگ جاتے ہیں۔ معاشرہ تو یقینا گھر سے بنتا ہے جب گھر میں سکون ، آسودگی اور خوشحالی ہوگی تو اسکا اثر معاشرے پر پڑیگا۔
شبنم رﺅف سے جب ادب پر گفتگو ہوئی تو انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ یوں تو مجھے شعر و شاعری سے شغف ہے لیکن کام کی زیادتی کی وجہ سے وقت نہیں ملتا لیکن جب بھی کوئی اچھی کتاب میرے ہاتھ لگ جاتی ہے میں اسے ضرور پڑھ لیتی ہوں۔ ویسے بھی بچے بھی اور میرے شوہر کو بھی ادب سے کافی لگاﺅ ہے اور ہم دونوں اکثر ادبی محافل میں شریک ہوکر اپنے شوق کی تکمیل کرتے ہیں۔ گفتگو کے دوران محترمہ شبنم نے بتایا کہ انہیں شاعروں میں غالب، فیض احمد فیض، پروین شاکر، علامہ اقبال وغیرہ کے اشعار کافی پسند ہیں۔ انہوں نے دوران گفتگو غالب کی غزل پیش کی جو قارئین اردونیوز کی نذر ہے۔
بازیچہ¿ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
اک کھیل ہے اور نگ سلیماں مرے نزدیک
اک بات ہے اعجاز مسیحا مرے آگے
جزنام نہیں صورت عالم مجھے منظور
جزوہم نہیں ہستی اشیاءمرے آگے
ہوتا ہے نہاں گرد میں صحراءمرے ہوتے
گھستا ہے جبیں خاک پہ دریا مرے آگے
مت پوچھ کہ کیا حال ہے میرا ترے پیچھے
تو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا مرے آگے
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے
گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر ومینا مرے آگے
٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: