Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دھوکے باز خواتین کے باعث مردوں میں خدمتِ عامہ کا جذبہ معدوم

شہزاد اعظم۔جدہ
پاکستان میں خواتین کے حقوق کی باتیں بے انتہا کی جاتی ہیں۔ ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر خواتین حقوق سلب کئے جانے کا شکوہ فرماتی ’’دکھائی‘‘ زیادہ اور سنائی کم دیتی ہیں ۔ان ’’شکوہ کُناں‘‘خواتین کے’’ فیشیئل زدہ‘‘ تمتماتے خدو خال ، سننے والے کومجبور کر دیتے ہیں کہ وہ  اپنے تمام تر ہوش و حواس صرف اور صرف ’’بصارت‘‘ یعنی دیکھنے کی قوت پر مرکوز کر دے۔ایسے پروگرام دیکھنے والے، حقوقِ نسواں کے ڈاکوئوں یعنی ’’ظالم مردوں‘‘ میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ’’خال خال‘‘ اور’’ خد خد‘‘ ہی ہوتی ہے۔پروگرام ختم ہونے کے بعد جب ان سے دریافت کیا جاتا ہے کہ عورتوں کی بے سروسامانی اور ’’ظالم‘‘مردوں کی کارستانی کے بارے میں آپ نے جو کچھ سنا اس سے آپ کا دل پسیجا یا نہیں؟ جواباً وہ کہتے ہیں کہ ہم نے نہ توکوئی کارستانی سنی،نہ بے سروسامانی  البتہ ’’حشر سامانی ‘‘ضرور تھی۔
حقوقِ نسواں کا ’’رونا پیٹنا ‘‘روسٹرم سے کی جانے والی تقاریر، بین المدارس انگریزی و اردو مباحثوں، ٹاک شوز اور ٹی وی پروگراموں کی حد تک تو شہ سرخیوں کی شکل میں سامنے آ سکتا ہے مگر معاشرتی حقائق کو بھی ذرا سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ آج کتنے ہی پڑھے لکھے، باصلاحیت اور مستحق نوجوان بے روزگار پھر رہے ہیں اور ان کی جگہ بے صلاحیت، غیر مستحق صنف نازک اپنی تمام تر نزاکتوں کے ساتھ موجود ہیں۔ ان کی قابلیت صرف یہ ہے کہ وہ ’’پیکرِ جمال‘‘ ہیں۔ ان سے دریافت کریں تو وہ کہیں گی کہ ’’معاشرے میں حق اُسی کو ملتا ہے جو مستحق ہوتاہے۔اگر آپ کسی چیز کااستحقاق ہی نہ رکھتی ہوں تو کوئی حق کیوں دے گا۔‘‘اس کا جواب ہم سے لیجئے کہ اگر یہ محترمہ جمال کا پیکر ہونے کی بجائے ہمارے جیسی نیلی پیلی ہوتیں توان کے لاکھ تعلیمیافتہ، ماہر، تجربہ کار اور صاحبِ کرداراور وضعدار ہونے کے باوجو کسی کو اُن میںکوئی صلاحیت نظر نہ آتی۔یہاں ہم کسی ایرے غیرے کی مثال نہیں دیتے، اپنا ذکر کرتے ہیں۔ جب ہم کڑیل تھے تو ہمیں زبردستی ناکامی سے معانقہ کرایاگیاتھا۔ ہوا یوں کہ ریڈیوسے نشر کئے جانے والے تعلیمی پروگرام کیلئے نئی آوازوں کی ضرورت تھی۔ ہمارے ہیڈ ماسٹر نے اسکول کے لڑکوں کے ٹیسٹ لئے، اس میں آواز، تلفظ اور زیر و بم وغیرہ پرکھے گئے اور ہمیں 2دیگر لڑکوں کے ساتھ ریڈیو اسٹیشن بھیج دیا گیا۔ وہاں ہمیں ریکارڈنگ روم میں آڈیشن کے لئے بلایا گیا۔ دو ہم تھے اور ایک ’’جمالیات کا پیکر‘‘ صنف نازک تھی جسے اُس دور میں ہم لڑکی کہہ سکتے تھے۔ شیشے کے پیچھے پروڈیوسر صاحب تھے۔ انہوں نے پہلے ہمیں اشارہ کیا کہ کوئی ڈائیلاگ سنائیے۔ ہم نے ایسے ’’برے وقتوں‘‘ کے لئے پہلے سے ایک ڈائیلاگ رَٹ رکھا تھا کہ’’آؤ خلیل مرزا ، ہم تمہارا ہی انتظار کر رہے تھے۔ ہم نے تو سنا تھا کہ امیر لوگ اپنے بڑے بڑے گناہوں پر پردہ ڈال لیتے ہیں لیکن تم کیسے سیٹھ ہو خلیل مرزا کہ ایک بے سہارا کو عزت کی زندگی بھی نہ دے سکے۔‘‘ہمیں جیسے ہی ڈائیلاگ سنانے کیلئے کہا گیا ہم شروع ہوگئے کہ ’’آؤ خلیل مرزا، ہم تمہارا ہی ...........‘‘ ہم یہیں تک پہنچے تھے کہ پروڈیوسر نے کہا کہ ٹھیک ہے، اپنی نشست پر واپس چلے جائیے۔ ہم جا بیٹھے۔ اب اس ’’پیکرِ جمالیات‘‘ کو بلایا گیا۔ اس سے کہا کہ کوئی ڈائیلاگ سنائیے۔ اس نے کہا کہ میرے کو یاد نہیں۔ پروڈیوسر نے کہا کہ آپ کوکوئی گانا آتا ہوگا۔ اس نے کہا گانا نہیں، ترانہ آؤندا ہے۔ پروڈیوسر نے کہا کہ سنائیے۔ اس نے کہا ’’یہ دیس ہماڑا ہے، اسے ہم نے سنواڑا ہے، اس کا اک اک ذڑہ ہمیں جان سے پیاڑا ہے۔‘‘ پروڈیوسر نے کہا’’تھینک یو۔‘‘آپ سب لوگ باہر جا کر انتظار کریں ہم آڈیشن کا نتیجہ وہیں بتائیں گے۔ 15منٹ کے بعد وہی پروڈیوسر صاحب باہر آئے اوراس صنف نازک کو انتہائی مسکراتے اور کھلکھلاتے چہرے کے ساتھ ابروئے حیرت کو کماندار کرتے ہوئے فرمانے لگے ’’کانگریچولیشنز، یو آر سلیکٹڈ‘‘۔ ہم نے کہا صاحب ہمارا کیا بنا۔ یہ سن کر ان کے ابروؤںکی ساری کمانیت کافور ہوئی، تیوری پر متعدد بل نمودار ہوئے اور وہ نتھنے پھلا کر تحقیر آمیز انداز میں گویا ہوئے،’’ آپ کا تلفظ ٹھیک ہے نہ ڈائیلاگ ڈلیوری ، جہاں تک آپ کی آواز کا تعلق ہے تو اس میں بھی ریڈیائی حُسن موجود نہیں۔ آپ کوئی اور شعبہ دیکھئے۔ آواز کی دنیا آپ کے لئے مناسب نہیں۔‘‘
ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی اکثریت ہے جو خواتین کا بے حد خیال رکھتے ہیں۔ ان میں صنف نازک کی خدمت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔ ایسے لوگ کسی خاتون کو کسی مشکل میں نہیں دیکھ سکتے۔ اگر وہ سخت گرمی میں اسکوٹر یا موٹر سائیکل پر جا رہے ہوں اوربس اسٹاپ پر کوئی خاتون بس کا انتظار کر رہی ہو یا فٹ پاتھ پر درخت کی چھائوں میںکھڑی کسی رکشہ یا ٹیکسی کی منتظر ہو تو کار سواروں کو تو چھوڑیں،کتنے ہی موٹر سائیکل سوار، اسکوٹر سوار اور یہاں تک کہ سائیکل سوار بھی رُک رُک کر استفسار کرتے ہیں کہ آپ نے کہاں جانا ہے، ہم چھوڑ آتے ہیں۔یہی نہیں بلکہ ہمارے ہاں تو بسوں میں بھی خواتین کے لئے علیحدہ حصہ مختص ہوتا ہے۔ اسے جالی یا سلاخیں لگاکر مردانہ حصے سے الگ بنایا جاتا ہے۔ خواتین کے اس حصے سے جب مردوں کو دیکھا جاتا ہے تو لگتا ہے جیسے سارے مرد جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید میں ہیں۔ یہ دیکھ کر نسوانی جذبہ انتقام کو کسی حد تک تسکین پہنچتی ہے۔
ماہرین سماجیات کا کہنا ہے کہ موبائل فون عام ہونے کے بعد خواتین کے لئے موٹرسائیکل سیکھنا ضروری ہو چکا ہے کیونکہ اکثر ایسے واقعات دیکھنے میں آئے ہیں کہ نسائی خدمت کا درد رکھنے والے کسی موٹر سائیکل سوار نے دھوپ میں کھڑی بس کا انتظار کرنے والے کسی خاتون کو ’’ٹرانسپورٹ خدمات‘‘ پیش کیں، وہ سوار بھی ہوئی اور کچھ دور جاکر اس ’’دھوکے باز، بے وفا‘‘ خاتون نے موبائل پر مسڈ کال دی اور انجامِ کار پولیس موبائل سیکنڈوں میں اس کا تعاقب کرتے ہوئے پہنچ گئی اور نوجوان کو موٹر سائیکل روکنے کے لئے کہااور اس موبائل سے برآمد ہونے والے افسران و جوانوں نے کسی ٹیم کی طرح متحد ہوکر جوتا، لات، تھپڑ، ڈنڈا، گالم، گلوچ سے اس نوجوان کی تواضع کی اور اسے موبائل میں ڈال کر تھانے لے گئے۔ وہاں جا کر اسے حوالات میں رکھ کر مارا پیٹا، ایک آدھ ہڈی وڈی توڑی اور پھر کہا کہ10ہزار یہاں رکھ دے ورنہ تیرے خلاف لڑکی کو اغوا کرنے کا مقدمہ تیار ہے۔ اس نے موبائل والوں سے جان چھڑانے کے لئے موبائل پر گھر والوں سے رابطہ کیا اور مطلوبہ رقم بھینٹ چڑھا کر گھر کا راستہ لیا۔ اس کے بعد سے وہ نوجوان نسائی خدمات سے دست کش ہو چکا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی ’’دھوکے باز اور بے وفا‘‘ خواتین کے باعث ہمارے ہاں کے مردوں میں خدمتِ عامہ کا جذبہ معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ خواتین خود ہی موٹرسائیکل چلائیں۔ اس طرح نہ صرف سڑکوں پر ٹریفک ’’رنگین‘‘ ہوجائے گی بلکہ بسو ں کے انتظار میںکھڑے اکثر نوجوان بھی ’’سنگوائے‘‘ جا سکیں گے اور ہمارے چینلز پر نمودار ہونے والے معاشرتی فلاح اور ترقی کے ٹھیکیدار کہہ سکیں گے کہ ہماری خواتین مردوں کے شانہ بشانہ، اسکوٹر بہ اسکوٹر، موٹر سائیکل بہ موٹر سائیکل اورکار بہ کارہیں۔ انہیں تمام حقوق حاصل ہیں۔ بلا شبہ پھر وہ دن بھی دور نہیں رہے گا جب خواتین ، مردوں کے حقوق سلب کرنا شروع کر دیں گی اور مرد اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے شکوہ کناں ’’سنائی ‘‘ دیں گے۔
 

شیئر: