Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عورت صنف نازک، یہی مزدوری کرکے گھر بھی چلاتی ہے

 مہترانی یا جمعدارنی کے روپ میں عورت کے اس کردار پر سو چنے کی فر صت کسی کو نہیں،اس حقیقت کا ادراک ہونا چا ہئے کہ عورت خواہ کسی بھی مذ ہب کی ہو ،اسے اس قسم کے کام پر نہیں لگانا چا ہئے
تسنیم امجد۔ریا ض
حال ہی میں امسال تعطیلات پر ہمیں صبح ہی صبح نسوانی بلند آ واز اس طر ح سنائی دی جیسے سننے والا بہرہ ہو ، ”بی بی جی ذرا اندروں ٹو ٹی کھول دیو ،پانی آ ئے گا تے صفائی ہوئے گی ،،رات سونے میں تا خیر ہو ہی جاتی ہے چھٹی پر جانے والوں کی اس آ واز سے آ نکھ کھل گئی اور سر میں درد ہو گیا ۔بھا بی سے کہا مجھے چائے لا دیں۔موڈ سخت آ ف ہو گیا ۔بھیا نے سمجھا یا کہ تمہیں اب اس آ واز کا عادی ہونا پڑے گا۔ اسٹریٹ کی صفائی والی مہترانی ہے ۔سڑ کوں پر کام کرتے ہوئے انہیں ٹریفک کے شور کا سا منا رہتا ہے اس لئے ایک دوسرے سے اونچی آ واز میں بات کرنا ان کی مجبوری ہے ۔آ ہستہ آ ہستہ یہ عادت بن جاتی ہے ۔اس لئے اونچے والیم کی شکایت بے معنی ہے بیچاری پچھلی رات سے ہی کام پر آ جاتی ہے ۔اس کی اس آ واز کا مقصدتمھاری بھابی کو ان کی روز کی ذمہ داری بھی یاد دلانا ہے یعنی رات کا سالن و روٹی اور گر ما گرم چائے کا پیالہ ۔جسے نماز کے ساتھ ہی ہلکی آنچ پر چڑھا دیا جاتا ہے ۔اس کا کہنا ہے کہ اس ایک پیالہ چائے سے اس کی تھکاوٹ اتر جاتی ہے ۔سالن ،روٹی تو میں بچوں کے لئے لے جا تی ہوں ۔ہاں ا سڑیٹ کی دوسری طرف نا شتے والی دکان والا مجھے حلوہ پوری دے دیتا ہے اسے معلوم ہے میرے بچوں کو بہت پسند ہے لیکن میں خرید نہیں سکتی ۔ان کے یہ شوق پورے کروں گی تو گھر کیسے چلاﺅں گی ۔وہ جس طر ح ’ سڑ ڑ سڑڑ ، کر کے چائے پیتی اس سے اس کے لطف ا ٹھانے کا اندازہ ہو جاتا تھا جاتے جاتے وہ کچھ کپڑوں کی بھی فرمائش کر جاتی ۔
بھابی نے بتایا کہ یہ اپنے کام سے بہت وفادار ہے ۔گر می ،سردی یا بارش ،اس کے لئے کو ئی معنی نہیں رکھتے۔غیر مسلم ہو نے کے با وجود اس میں صبر ،قنا عت و اخلاق کوٹ کوٹ کر بھرا تھا ۔بھابی بو لیں کہ اس پیشے سے متعلق عمو ماََ غیر مسلم ہی ہوتے ہیں۔وا ٹر اور سینی ٹیشن ایجنسی میں نوے فیصد ایسے ہی لوگ کام کرتے ہیں ۔ٹیکنالوجی کی تر قی کے با وجود ان کے ہاتھوں میں جھاڑو ہی ہے ۔صفائی کی گا ڑیاں بڑے بڑے لوگوں کے بنگلوں کے سامنے آ تی ہیں ۔مرد و خوا تین کا پیشہ یہی ہے ۔مین ہولوں کی صفائی میں انہی کو اتر نا پڑتا ہے ۔یہاں زہریلی گیس اور کبھی کبھی زہریلے پانی کا ریلا ان بیچاروں کی جان لے لیتا ہے ۔ایسے میں ان کے خاندان والوں کا کوئی پر سانِ حال نہیں ہوتا ۔یہ دفاتر کے چکر لگا لگا کر تھک جاتی ہیں ۔آ خر میں یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ سو شل سیکیورٹی اس ملازمت میں نہیں دی جاتی ۔اس حالت میں انہیں زیادہ کام کرنا پڑ تا ہے ،
پہچان تیری اے انسان آ خر ہے کیا
یہاں قا تل بھی تم ، مقتول بھی تم
بھابی نے مزید بتایا کہ نو بجے تک وہ گلیاں صاف کر کے گھر جاتی ہے ۔کپڑے تبدیل کر کے لو گوں کے گھروں میں صفائی دھلائی کا کام کرتی ہے ۔پو نچھا لگا نے سے کمر دکھ جاتی ہے یہ اکثر شکایت کر تی ۔ اس کا کہنا ہے کہ سرکار کی ایک تو تنخواہ بہت کم ہے دوسرا دیر سے یا کبھی کبھی دو دو مہینے نہیں ملتی۔یہی گھروں کی مز دوری گھر چلاتی ہے۔ کالونی کی بڑی بڑی بیگمات اسے دیتے ہوئے اس پر ا حسان جتاتی ہیں ۔کچھ تو سو شل ویلفئیر کا کام کرتی ہیں لیکن مہترانی ،جمعدارنی یا سو یپر کے روپ میں عورت کے اس کردار پر سو چنے کی فر صت کسی کو نہیں ۔اس حقیقت کا ادراک ہونا چا ہئے کہ عورت خواہ کسی بھی مذ ہب کی ہو ،اسے اس قسم کے کام پر نہیں لگانا چا ہئے ۔منہ اندھیرے گھر سے نکلنا ،کسی طور بھی صحیح نہیں ۔یہ صنف نازک ہے ۔اس پر گھر کی بے شمار ذمہ داریاں ہیں ۔لیکن اپنی ذات سے بے خبر ان ہستیوں کو صرف اپنے خاندان کی فکر ہوتی ہے ۔ایک اسلامی فلاحی ریاست کو دینِ اسلام کی متعین کردہ حدود کا ا حترام کرنا چا ہئے ۔جس کے مطابق عورت کو انتہائی اہمیت حا صل ہے ۔ہمیں ذاتی مفاد کے علاوہ کچھ نظر نہیں آ تا اسی لئے دوسروں کے حقوق کو نظر انداز کرنے کا احساس تک نہیں ۔میونسپل کمیٹی کی یہ لا پر واہی ہمیں ہندوﺅں سے ورثے میں ملی ہے ۔طبقاتی کشمکش،ذات پات اور اونچ نیچ کانتیجہ تھا کہ اس پیشے کو کم ذات والوں کے لئے مخصوص کر دیا گیا ۔ ہم نے بھی اس طبقاتی فرق کو جاری رکھا ۔
مزید بر آ ںجھا ڑو جسے بروم Broom) (اور جاروب بھی کہتے ہیںکا ذکر چلا تواس سے منسلک کئی تو ہمات بھی یاد آگئیںجو ہم بچپن سے سنتے آئے جیسے جھاڑو کو بستر کے ساتھ ٹکا کر نہ رکھو اس سے بری رو حیں بستر پر جادو کر تی ہیں ،اسے مغرب اور عشاءکے وقت نہ لگا ئیں ،جھا ڑو کسی کو لگ جائے تو اسے پر اس سے تھوک پھنکوا لو ورنہ وہ بیمار ہو جائے گا ،کو ئی گھر سے با ہر جائے تو فو راََ جھا ڑو نہ پھیرو ،جھا ڑو کو الٹا کھڑا نہ کرو ، منحوس ہوتا ہے وغیرہ و غیرہ۔ جھاڑو اور صفائی کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔اس کے حوالے سے اکثر کئی جملے سننے کو ملتے ہیں ،صفائی تو صفائی ہی ہوتی ہے ،جیب کی ،ملکی خزانے کی یا پھر گھر کی ،ہا ں ہر کسی کو صفائی دینے سے گریز کیجئے اور خود میں اور جھا ڑو میں فرق محسوس کیجئے وغیرہ وغیرہ تنکوں سے بنے اس جھاڑو کا ذکر تو قر آ ن میں بھی آ یا ہے ، ” اے ایوب تو اپنے ہاتھ میں سو تنکوں کی جھا ڑو پکڑ لو اور اپنی قسم پوری کر لو یعنی ایک ہی بار اپنی زو جہ کو مار لو ،،( صبر ایوب ؑ کے حوالے سے جب انہیں اپنی بیماری کے دوران اپنی زوجہ کے حوالے سے غلط فہمی ہو گئی تھی تب انہوں نے قسم کھائی تھی اسے سو کو ڑے مارنے کی ۔جب غلطی کا احساس ہوا تو تب یہ حکمِ ربی آیا تھا ) ۔
گز شتہ دنوں ایک فیچر فلم بھی اس پر دیکھنے کو ملی تو معلومات میں ا ضافہ ہوا ،ایک جملے کا استعمال کثرت سے کیا گیا تھا ،” تم سے تو جھا ڑو کی اہمیت زیادہ ہے اپنی اوقات میں رہو۔ گز شتہ دنوں ایک خبر پڑ ھنے کو ملی ،لا ڑ کانہ میں جوا کھیلنے کی سزا یہ دی گئی کہ شہر بھر کے ا سکولوں میں جھاڑو لگا ﺅ ۔واہ کیا خوب ۔۔۔۔ ہمارے آ ئین کے آ ر ٹیکل27(۱) میں کسی قسم کی طبقاتی تقسیم کی سختی سے مما نعت کی گئی ہے لیکن حکومت اسے نظر انداز کئے ہوئے ہے ۔گذ شتہ دنوں اسٹیٹ بنک اور پاکستان بنک ایسو سی ایشن نے مل کر کراچی کی مختلف ا سٹریٹس کی صفائی کا منصوبہ بنایا جس میں صفائی کی گا ڑیوں میں سو ئپر مرد اور عور تیں دو نوں ہو نگی۔اس پر عمل درآمد ہونے میں روکاوٹیں آ ئیں ۔یہ بھی سنا گیا کہ انہیں سو شل سیکیورٹی بھی دی جائے گی لیکن یہ سب کا غذوں تک ہی محدود رہتا ہے ۔کاش ان پر عمل درآمد ہو جائے اور ان کی زندگیوں میں بھی سکون آ جا ئے ،
ان کے لئے بھی کوئی بشارت میرے مولا
خوا بوں کے سوا جن ، کو میسر نہیں کچھ بھی 
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: