Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

.....رخصت کر دیا تھا

محمد مجاہد سید۔لکھنو

ابر کے موڑ تک بس لا کے رخصت کر دیا تھا
تصور نے مجھے بہلا کے رخصت کر دیا تھا
سرِ شاخِ تمنا پھول کھلتے بھی تو کیسے
نمودِ شوق نے پاس آ کے رخصت کر دیا تھا
نہ لوٹا قیس پھر بستی میں تو حیرت بھی کیا ہے
اسی نے تو اسے جھٹلا کے رخصت کر دیا تھا
تمنا کے سفر پر کب گیا تھا اور کوئی
ہمیں نے خود کو دھوکا کھا کے رخصت کر دیا تھا

 

شیئر: