Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستانی رہنماوں کی وطن واپسی آسان نہیں

کراچی ( صلاح الدین حیدر ) کئی ایک پاکستانی رہنماوں کو کافی طویل عرصے سے جلا وطنی میں اپنی مرضی یا قید کے خوف سے جلا وطنی کی زندگی گزرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ کچھ تو 25 سال سے بھی زیادہ لندن میں رہائش پذیر ہیں۔ کچھ 4 یا 5 سال سے اور کچھ 2016ءسے دبئی میں ہیں لیکن پاکستانی حکومت کو انہیں واپس لانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ایم کیو ایم کے بانی 1991ءسے لندن میں مقیم ہیں چونکہ انہوں نے عدالت سے پناہ لی تھی اس لئے حکومت پاکستان کو انہیں واپس لانے کےلئے عدالتی دروازہ ہی کھٹکھٹانا پڑے گا۔ پھر ا نہیں برطانوی شہریت بھی حاصل ہوگئی ہے۔ مطلب یہ کہ ان کی واپسی کےلئے بڑی جدوجہد کرنی پڑے گی۔ یہ اتنا آسان کام نہیں۔ برطانوی حکومت چاہے بھی تو پاکستانی کی مدد نہیں کرسکتی صرف عدالت ہی ان کے بارے میں کوئی حکم جاری کرسکتی ہے۔ جہاں تک سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا سوال ہے وہ وہاں عدالت سے ضمانت لے کر بیماری کا علاج کرانے لندن گئے لیکن دل کا عارضہ ہونے کے باوجود لندن کی سڑکوں پر نظر آتے ہیں۔ نواز شریف کے دونوں صاحبزادوں، حسن اور حسین کا تعلق ہے تو دونوں برطانوی شہری ہیں۔ اب اگر پاکستانی حکومت برطانوی قانون کے تحت ان کے خلاف مقدمہ جیت جاتی ہے تو شاید انہیں واپس لایا جاسکے لیکن فی الحال یہ ممکن نظر نہیں آتا۔ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو خود ان کے ساتھیوں نے پاکستان سے باہر بھجوایا۔جب سے وہ دبئی میں مقیم ہیں۔ پاکستانی سپریم کورٹ ان کے خلاف غداری کا مقدمہ سن رہی ہے۔ یہ کیس لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر توفیق آصف اور کئی دوسرے لوگوں نے قائم کیا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے عدالت کے اعلی اہلکار کو حکم دیا ہے کہ وہ اب تک کی تفتیش اور مشرف کو وطن واپس لانے کے بارے میں حکومت کی کوششوں سے ان کو آگاہ کرے۔ عدالت نے یہ بھی حکم دیا کہ اگر وہ بیماریا کسی اور مجبوری کی وجہ سے سفر نہیں کرسکتے تو ویڈیو لنک کے ذریعے اپنی صفائی پیش کریں لیکن ایسا لگتا ہے کہ عدالت حکومت پاکستان کے اقدامات سے مطمئن نہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مشرف سنگین غداری کے مرتکب ہوئے اگر انہیں حکومت باہر بھیج سکتی ہے تو واپس بھی لاسکتی ہے۔ دیکھیں حکومت کو کامیابی ہوتی ہے بھی کہ نہیں۔
 

شیئر: