Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’ایہہ سی اسٹینڈرڈ ‘‘

شہزاد اعظم

بات ہے 1980ء کی دہائی کی جب شادی تھی ہمارے بھائی کی۔ مہمانوں کے لئے پلائو پکوانا تھا۔ نائی سے بات چیت کی تو انہوں نے نصیحت فرمائی کہ اکبری منڈی جانا، وہاں سے ہر مال ایک نمبر لے کر آنا۔ چاول پرانا ہو اور ایسا کہ اسے پانی میں بھگویا جائے اور پکایا جائے تو وہ انگلی کی پور کے برابر طویل ہو۔ گرم مسالہ بھی وہیں سے لانا، گھی اور دیگر اشیاء بھی اکبری منڈی سے ہی لائیے گا اور ان سے کہئے گا کہ ہمیں ’’ایک نمبر‘‘ شے چاہئے ۔ ایسا نہ ہو کہ دو نمبر چیز آجائے اور اعزہ و اقرباء میں آپ کی بے عزتی ہو، لوگ کہیں کہ کیا بدذائقہ اور گھٹیا پلائو کھلایا ہے۔
ہم تو پہلے ہی ڈرے سہمے تھے، ’’نائی بھائی‘‘ نے اس قدر انتباہی نصیحت کر کے ہمیں سچ مچ دہشت زدہ کر دیا۔ ہم محلے سے دو چار ذہین و فطین نوجوانوں کو اپنے ہمراہ لے کر لاہور کی اکبری منڈی پہنچے۔ وہاں ایک معقول شکل و صورت والے دکاندار سے پہلے توعلیک سلیک کی تاکہ اس کے مزاج کی رعونت و نرمی، برودت و گرمی کا اندازہ لگایا جا سکے۔ اس کے بعد ہم نے استفسار کیا کہ ’’لونگ‘‘ مل جائے گی؟ انہوں نے جواباًخود ہی فرما دیا کہ ایک نمبر، 2نمبر یا 3نمبر؟ ہم نے کہا کہ جناب یہ نمبر وں کا کیا سلسلہ ہے؟ اس سوال کے جواب میں محترم صاحب دکان نے جو فرمایا وہ یہاں پیش کرنے کی جسارت کی جا رہی ہے:
برادر من ! جہاں آپ اور ہم زندگی گزار رہے ہیں یہ ’’تیسری دنیا‘‘ کہلاتی ہے۔ یہاں تین قسم کی اشیاء دستیاب ہوتی ہیں اور اسی حساب سے3قسم کے تجار پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ ہیں جو تیسرے نمبر کی چیز خرید کر لے جاتے ہیں اورایک نمبر شے کی قیمت پر عوام کے ہاتھ فروخت کرتے ہیں۔ دوسرے وہ ہیں جو 2نمبر کی شے خرید کر لے جاتے ہیں اور 2نمبر کے حساب سے ہی فروخت کرتے ہیں اور ایک وہ ہیں جو ایک نمبر کی شے خریدتے ہیں اور لوگوں کو تیسرے نمبر کی سستی قیمتوں پر فروخت کرتے ہیں۔ہماری تیسری دنیا میں پہلی قسم کے تاجروں کی تعداد بے حد ہے جبکہ مذکورہ تیسری قسم کے تاجر خال خال ہی پائے جاتے ہیں۔ اب آ پ فرمائیے لونگ آپ کو کس لئے چاہئے ؟ ہم نے کہا کہ در اصل بھائی کی شادی میں پلائو پکوانے کا ارادہ کیا ہے ۔یہ سن کر دکاندار نے فرمایا کہ پھر تو آپ کو ہر شے نمبر ون ہی خریدنی چاہئے۔ یہ کہہ کر انہوں نے ہمیں پلائو کی دیگ کے لئے استعمال ہونے والی تمام اشیاء عطا فرما دیں۔ دام انتہائی معقول اور ذائقہ، یقین جانئے آج بھی وہ لونگ ، بڑی الائچی، زیرہ، دار چینی اور اکبری منڈی سے خریدی گئی دیگر اشیاء کی خوشبو یاد آتی ہے تو ذہن 80ء کی دہائی میں پہنچ جاتا ہے۔
اس تمام روداد سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ آپ جتنا گڑ ڈالیں، اتنا ہی میٹھا ہوگا۔کم پیسوں سے خریدی گئی شے کا معیار بھی کم ہوگا اور زیادہ پیسے خرچ کر کے لی جانے والی شے کا معیار لا محالہ، ہو گا اعلیٰ۔ہم یہی خیال لئے چند روز قبل کراچی کے ریلوے اسٹیشن پہنچے ۔ ہمارا ارادہ لاہور کے لئے ریل میں نشستیں محفوظ کرانا تھا۔ ہم نے ریلوے بکنگ کے ذمہ دار افسر سے کہا کہ جناب ہمیں مناسب، آرام دہ اور معیاری  سفر کے لئے نشستیں محفوظ کرانی ہیں، کیا مشورہ دیں گے۔ انہوں نے فرمایا معیاری سے کیا مراد ہے ۔ ہم نے عرض کی کہ جناب ریل کی بوگی میں دھول مٹی کا گزر نہ ہو تاکہ جب ہم لاہور جا کر اتریں توہمیں لینے کیلئے آنے وا لے ہماری شکلیں پہچان سکیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کے لئے آپ کو ’’ اے سی اسٹینڈرڈ‘‘ کی ٹکٹ لینی پڑے گی ۔ ہم نے کہا کہ 5ٹکٹس کتنے کی، انہوں نے فرمایا 17ہزار 450روپے سکہ رائج الوقت۔ گویا ایک نشست ہمیں 3490میں ملی۔ہم نے سوچا کہ کچھ بھی سہی، ایک تو بوگی ’’ایئر کنڈیشنڈ‘‘ اور وہ بھی ’’اسٹینڈرڈ‘‘۔ہم نے لاہور تمام اعزہ کو فون کر دیا کہ ہم ’’اے سی اسٹینڈرڈ ‘‘ سے آ رہے ہیں، جس نے لینے آنا ہے ، آجائے، بعد میں شکایت نہ کرنا کہ ہمیں بتایا نہیں تھا۔
بہر حال وہ دن بھی آگیا جب ہم ’’اے سی اسٹینڈرڈ‘‘میں سوار ہونے کے لئے پہنچ گئے۔عام سی بوگی تھی جس کا فرش جا بجا مخدوش انداز میں کٹا، پھٹا، اُٹھا اور پٹخا ہوا تھا۔کچھ عرصہ قبل 3200روپے کی ٹکٹ ایسی جگہ پر تھی جہاں لکڑی کے ’’پھسلنے والے دروازے‘‘ نصب تھے مگر 3490کرایہ دے کر ایسی نشستیں ملیں جن میں دروازہ تو دور کی بات، پردہ بھی نہیں تھا۔باتھ روم گئے اور بیسن میں ہاتھ دھونے کی ’’گستاخی‘‘ کی تو سارا پانی جوتوں پر گرا۔ غور کرنے پر پتا چلا کہ نیچے پائپ ہی نہیں ہے۔ ہم نے ذمہ دار سے کہا تو اس نے جواب دیا کہ پائپ ٹوٹ گیا تھا اس لئے الگ رکھ دیا ہے۔ ہم نے کہا کہ ہم کیا کریں، کہنے لگا دوسرا باتھ روم دیکھ لیں۔ وہاں نہ پانی تھا اور نہ اس کا دروازہ بند ہو رہا تھا۔ہم نے کہا یہ کیا ہے تو اس نے کہا کہ ’’گاڑی میرے ابا کی تو نہیں ہے، جو ذمہ دار ہے اس سے شکایت کریں۔‘‘ ہم برتھ پر استراحت کیلئے دراز ہوئے تونیچے گرنے لگے کیونکہ برتھ کی چوڑائی 18انچ اور 2سوتر تھی۔ اس پر ٹیک لگا کر بیٹھنا مشکل تھا کیونکہ ٹیک اوپر تھی اور کمر نیچے۔ہمارے ایک صاحبزادے نے اس موقع پر ’’ارشاد فرمایا‘‘ کہ پاپاہم اس کا نام سمجھنے میں دھوکا کھا گئے، ’’اے سی اسٹینڈرڈ‘‘ اسکا نام نہیں بلکہ کسی مسافر کے دکھے دل کا پنجابی میں استفسار ہے کہ ’’ ایہہ سی اسٹینڈرڈ‘‘۔ہمیں آج اکبری منڈی کا وہ نائی بھائی بہت یاد آیا جس نے کہا تھاکہ تاجروں کی ایک قسم وہ بھی ہے جو تیسرے درجے کا مال دیتی ہے اور پہلے درجے کی قیمت لیتی ہے۔
 

مزید پڑھیں:- - --برادریوں کے ووٹ تقسیم کرنے کا کھیل

شیئر:

متعلقہ خبریں