Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عالمی طاقتیں کشمیر میں گھسنے کی خواہشمند

 مسئلے کے حل کے نام پر کسی قسم کا ڈھونگ رچا کر کوئی کھیل کھیلا گیا تو یہ موجو دہ حالا ت سے زیا دہ خطرنا ک ثابت ہو گا
 
سید شکیل احمد  
    وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاک، ہند کشیدگی میں کمی آئی ہے،جنگ ٹل گئی ہے مگر خطرہ ابھی برقرارہے۔جنگ کو خارج از امکان قرارنہیں دیاجاسکتا۔دونوں ممالک کی افواج اب بھی مکمل طورپر الرٹ اور جنگی پوزیشن پر ہیں۔پاک فوج عوام کی امیدوں پر پورااتری۔ قوم کو وردی میں ملبوس اپنے بیٹوں پر فخر ہے۔پاکستان کے دوستوں اور برادرممالک نے بھی کشیدگی کم کرنے میں بھرپور کرداراداکیاجبکہ اہم عالمی دارالحکومتوں نے بھی پاکستان کے خلاف ہندوستانی پروپیگنڈا مسترد کرتے ہوئے ہندکو جارحیت سے گریز کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
    بدھ کو عمران خان کی زیر صدارت پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا جس میں پارلیمانی پارٹی نے اقتصادی اصلاحات بل 2018-19ء کی منظوری دی۔ذرائع کے مطابق اس موقع پر وزیراعظم نے پاک، ہند کشیدگی پر پارٹی ارکان کو اعتماد میں لیااور کہا کہ کالعدم تنظیموں پر پابندی ملک کا اندرونی معاملہ ہے، کوئی بھی فیصلہ عالمی دباؤکے پیش نظر نہیں کیا جارہا۔دنیا پر واضح کرچکے کہ ہم وہ فیصلہ کریں گے جو ملکی مفاد میں ہو گا۔وزیراعظم نے مسلح افواج کی بہادری کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ پوری قوم کو اپنے بیٹوں پر فخر ہے۔عمران خان نے وزارت خارجہ کو بھی خراج تحسین پیش کیا۔
    اپنی جگہ وزیر اعظم کی بات درست ہے اور ہو سکتا ہے کہ پاکستان نے کوئی فیصلہ بیر ونی دباؤ میں آ کر نہیں کیا۔ کچھ عرصے پہلے کی بات ہے کہ وزیر داخلہ شہر یا ر آفرید ی سے ایک وفد نے ملاقات کی تھی جس میں وفد کے شرکا ء نے دینی ، فلا حی اور ایسی ہی تنظیمو ں پر پا بندی عائد ہو نے کا خدشہ ظاہر کیا تھا جس پر شہر یا رآفرید ی نے بے دھڑک فرمایا تھا کہ حافظ سعید تو الگ بات ہے، جب تک پی ٹی آئی اور ہم پارلیمنٹ میں ہیں، کوئی مائی کا لا ل ان پر پا بندی نہیں لگا سکتا ۔ اب پا بندیاں لگنا شروع ہو گئی ہیں اور یہ پا بندیا ں ڈوزیئر کے بعد لگنا شروع ہوئی ہیں جس کے بارے میںحکومتی حلقو ں کا مو قف ہے کہ ہند یا کسی کے دباؤ میں آکر پا بندی لگا نے کا فیصلہ نہیں کیا گیا۔ فلا ح انسانیت اور جمعیت الدعوۃ کے بارے میں پہلے ہی فیصلہ ہو چکا تھا ۔یہ اتفاق ہے کہ ہند کے فراہم کر دہ ڈوزئیر میں ان کا نا م شامل ہے ۔ حکومت یہ کہتی ہے تو ما ن لیتے ہیں مگر حالا ت و واقعات اس امر سے ہٹ کر کہا نی سنا رہے ہیں ۔
    کسی حکومت نے اپنی غلطیو ں سے نہ تو سیکھا ہے ، نہ کبھی اپنی غلطی کو تسلیم کیا ہے اورنہ کبھی یہ تسلیم کیا ہے کہ اس کے فیصلے اپنے نہیں ہوتے بلکہ کسی دباؤ کا نتیجہ ہو ا کر تے ہیں ۔ پہلی بات تویہ ہے کہ حکومت کو ہند سے ڈوزئیر مانگنا ہی نہیں چاہئے تھا ، یہ نا قص خارجہ پا لیسی اور ناتجر بہ کا ری کی علا مت ہے ۔ جس طر ح ماضی میں پاکستان کا مو قف رہا ہے کہ پا کستان دہشت گردی کی کسی کا رروائی میں ملو ث نہیں اور وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کر رہا ہے ،اسی مو قف کو اپنا نا چاہئے تھا۔ثبوت ما نگنے کی ضرورت ہی نہیں تھی ۔اب ہند نے ڈوزئیر دئیے ہیں تو ان کا جو اب بھی دینا ہو گا ۔ جہا ں تک جمعیت الدعوۃ اور فلا ح انسانیت کے خلا ف کا رروائی کا تعلق ہے تو اس مو قف کو کوئی تسلیم نہیںکر ے گا کہ یہ محض اتفاق ہے کہ جن کے خلا ف کا رروائی کی جا رہی ہے ان کا نا م دوزئیر میں شامل ہے ۔
    جہا ں تک وزارت خارجہ پر وزیر اعظم کے اعتما د کے اظہا رکا تعلق ہے تو وہ بھی باعث حیر ت ہے کیو نکہ اس ہنگا می دور میں وزارت خارجہ کی کا رکر دگی پھس پھسی رہی ہے ۔ اس امر کی اطلاعات سرکا ری ذرائع سے ملتی رہی ہیں کہ فلا ں ملک کے سربراہ یا وزیر خارجہ کی ٹیلی فون کا لز آئیں مگر یہ کوئی اطلا ع نہیں کہ انہو ں نے پا کستان کے ساتھ کھڑے ہو نے کا مظاہرہ کب اور کہا ں کیا ۔ ماسوائے ترکی کے صدر اردگان کے کہ ان کے حوالے سے یہ خبر جا ری ہوئی کہ انہوں نے پاکستان کی حما یت کی ہے ۔ ترکی کے صدر کی یہ حما یت وزارت خارجہ کی کاوشو ں کا نتیجہ نہیں کہلا سکتی کیو نکہ ترکی کی حکومت کا یہ رویہ پا کستان اور ترکی کے درمیان صدیو ں پر انے رشتے کی غما زی کر تا ہے ۔ہر مر تبہ ایسے مو اقع پر ترکی نے پاکستان کی حما یت کی ہے۔ پاکستان اور تر کی برسو ں سے عوام دوست تعلق میں بندھے ہو ئے ہیں ۔ یہ اسی کا ثمر ہے جبکہ یہ دیکھنے میںآیا ہے کہ یو رپی یونین کھل کر ہند کے ساتھ ہے اور ابھی تک ہند کے مو قف کی حمایت کر رہی ہے ۔
    خارجہ پا لیسی کی نا کا می اسلا می کا نفرنس کے مو قع پر بہت کھٹکی ۔ یہا ں پا کستان کا مو ثر کردار نظر نہیںآیا جبکہ اسلا می کا نفرنس میں بھی خارجہ پا لیسی کی ڈونڈی خوب پیٹی جا رہی ہے ۔پہلی نا کا می تو یہ رہی کہ پا کستان کی کا وشو ں کے باوجو د ہند کو اسلا می کانفرنس میں مہمان خصوصی کا درجہ ملا۔ جہا ںتک کشمیر سے متعلق قرار داد کا تعلق ہے تو اس قرارد اد نے پیش تو ہو نا تھا کیو نکہ وہ ایجنڈے میں پہلے ہی شامل تھی البتہ کا نفرنس کے شر کا ء کا شکریہ کہ انہو ں نے پاکستان کی عد م شرکت کے باوجو د یہ قرار داد منظورکرلی لیکن اسلا می کا نفرنس کے اجلا س کا جو اعلامیہ جا ری کیا گیا اس میں اس قرا ر داد کا دور تک ذکر نہیں ۔ اسکے باوجو د اگر عمر ان خان یہ کہیں کہ ان کی خارجہ پالیسی کامیاب ہے تو حیر انی تو ہو نی ہے ۔ کیا اسلا می کا نفرنس میں ہند کی خارجہ پالیسی کو نا کام خارجہ پالیسی کہیں گے کہ وہ نہ صرف کانفرنس میں مہما ن خصوصی کے درجہ سے شریک ہو ا بلکہ عرب اما رات کے وزیر خارجہ جو کا نفرنس کے میز بان بھی تھے، انہو ں نے فرمایا کہ وہ امید کر تے ہیں کہ ہند اسلا می کانفرنس تنظیم کا حصہ بن جائے گا ۔
    اب یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ عالمی طاقتیں کشید ہ حالا ت کے ذریعے کشمیر میں گھسنا اور اس پر ہا تھ صاف کرنا چاہتی ہیں اور وہ ان مقا صد کے لئے ایک ہلکی پھلکی جنگ کر انے کے لئے فضا ہمو ار بھی کررہی ہیں جیسا کہ وزیر اعظم عمر ان خان نے کہا ہے کہ پاک، ہند کشیدگی میں کمی آئی ہے،جنگ ٹل گئی ہے مگر خطرہ ابھی برقرارہے۔جنگ کو خارج از امکان قرارنہیں دیاجاسکتا۔دونوں ممالک کی افواج اب بھی مکمل طورپر الرٹ اور جنگی پوزیشن پر ہیں۔کشمیر کے معاملے میں عالمی طاقتو ں اوربالخصوص امر یکہ کی پالیسی تشویش نا ک ہے۔کشمیر کا کوئی ایسا گھرانہ نہیں جس گھر سے حریت کی راہ میں قربان ہو نے والے کا جنا زہ نہ اٹھا ہو ۔جب کشمیر کے باشند وںکو ہند قبول نہیں تو وہ کسی تیسری قوت کو کس طر ح قبول کر لیں گے؟ یہ نا ممکن ہے چنا نچہ مسئلے کے حل  کے نام پر کسی قسم کا ڈھونگ رچا کر کوئی کھیل کھیلا گیا تو یہ موجو دہ حالا ت سے زیا دہ خطرنا ک ثابت ہو گا ۔
    ہند جو ایک سیکو لر ریا ست کے طور پر وجو د میں آیا، اس کو مو د ی نے ہندوریاست کا تشخص دید یا ہے اور وہ ہند کے ایک دوسرے درجہ کی اکثریت والے ملک کی آڑ لے کر اسلا می ملکو ں کی صف میں گھس رہا ہے ۔اسرائیل میںبھی مسلما ن آبا د ہیں اور وہ فلسطینی النسل ہیں۔ فلسطینی ریا ست اور اسرائیل کی مسلما ن آبا دی کو شامل کر لیا جا ئے تو ایک بڑی اکثریت جو اسرائیل کی صہیونی آبادی سے بھی کئی گنا بڑی ہو جا تی ہے، کل اسی آبادی کی بنیا د پر کیا اسرائیل کو بھی اسلا می کانفرنس تنظیم میں شامل کر نے کا جو ا ز قبول کر لیا جا ئیگا؟
 
مزید پڑھیں: - - - - -’’ایہہ سی اسٹینڈرڈ ‘‘

شیئر: