Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ترقی کی نئی راہیں نوجوانوں میں تبدیلی لاتی ہیں، عایشین

زینت شکیل۔جدہ
    التواب الرحیم کی عبادت ڈرتے ہوئے، تعظیم کرتے ہوئے اس محبت و یقین سے کرنی چاہئے کہ وہ بہت توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم والا ہے۔ جو شخص یہ چاہے کہ وہ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کرے اسے چاہے کہ وہ کثرت سے سورہ اخلاص پڑھا کرے۔ انسان ہر وقت ایک حالت میں نہیں رہتا شخصیت تربیت کا آئینہ ہوتی ہے۔ گھر کی بہترین تربیت اور اساتذہ کی تعلیم شخصیت میں چار چاند لگا دیتی ہے۔ اساتذہ طلبا و طالبات کے لئے مشعل راہ ہوتے ہیں۔ تنہائی کا وقت بہت ڈرتے ہوئے گزارنا چاہئے۔ اس کی کوئی دوسری مخلوق نہیں بلکہ خود خالق گواہ ہوتا ہے۔ اسی موضوع پر ہوا کے دوش پر گفتگو محترم اسماعیل اور انکی اہلیہ عایشین سے ہوئی۔
    ترکی کے شہر برسا کے قریب ایک خوبصورت گھر میں ایک ذہین و فطین بچی نے اپنی آمد پر گھر بھر کو خوشیوں کا گہوارہ بنا دیا۔ ان کے بزرگوں کے مشورے کے بعد ان کا نام عایشین رکھا گیا۔اس وسیع و عریض گھر میں انہیں دادا، دادی، والدین اور قریبی بزرگ رشتہ داروں کی بھرپور توجہ ملی اور انہوں نے اسکول میں اپنی اساتذہ سے بھی ہمیشہ توجہ پائی۔ جب وہ سکینڈری اسکول کیمپس میں پہنچیں تو اس وقت وہاں کی پرنسپل صاحبہ نے جو سبق آموز بات کہی وہ ہمیشہ کے لئے زاد راہ بن گئی۔ سائنس کے مضامین کے ساتھ ہائی اسکول مکمل کرنے کے بعد ٹیکسٹائل میں بیچلرز ڈگری حاصل کی۔ اسماعیل صاحب انکے عم زاد ہیں۔ بزرگوں نے یہ رشتہ طے کیا اور اس طرح وہ شادی کے بعد رخصت ہو کر اپنے سسرا ل برسا آئیں اور گھر داری میں مگن ہوگئیں۔ جناب اسماعیل نے معاشیات میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور ایک معروف ادارے میں خدمات انجام دینے لگے۔ انکی محنت و لگن نے انہیں ترقی کے مدارج آسانی سے طے کرائے۔ وقت کی پابندی اور اپنے کام سے ایماندری نے ان کی نیک نامی میں اضافہ کیا ۔
    محترمہ عایشین نے بتایا کہ ہمارے والد اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے اس لئے ہم سب ایک گھر میں ساتھ ہی رہتے تھے۔ دادا جان اور دادی جان کے زیر سایہ پرورش پانے والے بچوں میں بہت ساری باتیں وہ شامل ہوتی ہیں جو انکے بزرگ انہیں بتاتے ہیں اور خود انکی تربیت میں حصہ لیتے ہیں۔ یہ سب کچھ طویل لیکچر کے ذریعہ نہیں ہوتا بلکہ بچوں کے سامنے ان بزرگوں کی شخصیت موجود ہوتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پہلے کے لوگ فطرت کے زیادہ قریب ہوتے تھے۔ انکی عبادت میں زیادہ خشوع و خضوع ہوتا تھا۔ وہ دنیا کی طرف ملتفت نہیں ہوتے تھے۔ اب دنیا گلوبل ولیج بن گئی ہے کہ ہر ملک کے لوگ مختلف ممالک میں جابسے ہیں۔ اس سے جہاں بہت ساری آسانیاں ملی ہیں وہا ں خاندانوں میں دوری بھی ہو گئی ہے۔جو شہر سے دور بستیوں میں رہتے تھے انہوں نے شہروں کا رخ کیا ہے اور جو چھوٹے شہروں میں رہتے تھے وہ بڑے شہروں کی چکاچوند سے متاثر ہوئے اور وہاں نئی دنیا بسائی۔ یہ بھی درست ہے کہ جو لوگ اپنے ملک میں نہایت امیرانہ طرز زندگی گزارتے ہیں انہیں سائنس وٹیکنالوجی کی دنیا ایسا مسحور کرتی ہے کہ وہ ترقی یافتہ ممالک میں رہائش اختیار کر لیتے ہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ انہیں وہی سہولتیں اور آرام اپنے ملک میں آسانی سے مل رہا تھا۔ بیرون ملک اس کے لئے ایک خطیر رقم خرچ کرنی پڑتی ہے۔ ایک چھوٹے اپارٹمنٹ کی ایسی قیمت وصول کی جاتی ہے جیسے وہ کوئی نایاب محل ہو۔ نصف صدی سے مشترکہ خاندانی طرز زندگی میں تبدیلی آئی جس کی وجہ یہی ہے کہ لوگ دور دراز کا سفر کرنے لگے ہیں۔ پھر جہاں روزگار کے مواقع حاصل ہوجائیں وہیں رہائش اختیار کرتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں انسان چند سال رہائش اختیار کر لیتا ہے وہاں کا عادی ہوجاتا ہے۔ بہت ساری سہولتیں آسانی سے دستیاب ہوتی ہیں اور دوست احباب بھی میسر آجاتے ہیں۔ بزرگ رشتہ دار اس دنیا سے کوچ کرجاتے ہیں تو اس سے بھی واپسی کی راہیں مسدود ہوجاتی ہیں۔ اس طرز زندگی کا ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ نوجوان اپنی زندگی کی جدو جہد میں بروقت حصہ لیتے ہیں۔ اس طرح ان میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے، اپنی تعلیم پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور ترقی کرنا سیکھتے ہیں۔
     محترمہ عایشین کا کہنا ہے کہ ہم لوگوں نے مشترکہ خاندانی طرز زندگی بھی گزارا اور اب کئی سالوں سے ایک خاندان کے طرز پر زندگی گزار رہے ہیں۔ دونوں میں فرق بتا سکتے ہیں کہ جب نوجوان والدین کے ساتھ رہتے ہیں تو انہیں ہر طرح کی سپورٹ حاصل ہوتی ہے۔ انہیں اپنی زندگی کی شروعات میں زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا لیکن جہاں اکیلے ترقی کی راہوں میں آگے بڑھنے کیلئے جدوجہد کرنا پڑے تو ایسے نوجوان زیادہ پر اعتماد ہوتے ہیں ، وہ آگے بڑھنے کی خواہش کو پوری کرتے ہیں تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور جہاں روزگار ملے وہاں رہائش اختیار کرتے ہیں۔ نئی جگہ پر ایک نئی شروعات ہوتی ہے جہاں انکے گھر الگ ہوتے ہیں وہیں انکا حلقہ احباب بھی نیا بنتا ہے۔ والدین کے احباب ان کے بزرگوں میں شامل ہوتے ہیں۔ ترقی کی نئی راہیں نوجوانوں میں ایک اچھی تبدیلی لاتی ہیں۔ وہ اپنی زندگی میں جہاں خود مختار بن جاتے ہیں وہیں ان پر ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں ۔
اسے بھی پڑھئے:غربت کے ساتھ جہالت بھی ہو تو زندگی آزمائش بن جاتی ہے، رحمت ا لنسا

    محترمہ عایشین نے اپنے والدین کا ذکر بہت محبت کے ساتھ کیا۔ انہوں نے کہا کہ میرے والد صاحب اس بات کی طرف توجہ دلاتے تھے کہ کچھ بھی ہو کبھی غلط بیانی نہ کرنا، دھوکہ نہ دینا ہمیشہ سچ بولنا اور کبھی کام سے جی نہ چرانا۔ یہ سنہرے اصول ایسے ہیں کہ جو اپنا لے گا ہمیشہ مطمئن رہے گا۔اپنی والدہ کی بابت یو ں گویا ہوئیں کہ ماں تو سراپا شفقت محبت ہوتی ہے۔ انکی شخصیت سے یہی سیکھا کہ وہ ہر کسی کو عزت دیتیں، رحم دلی اور شفقت و محبت کا سلوک کرتیں۔ لوگوں کی مدد کرنا، ان کے کام آنا، گھر کے کام میں مدد کرنا اور بزرگوں کی دعائیں لینا بھی بہت اہم ہے۔سیاحت کے بارے میں عایشین صاحبہ نے کہا کہ ویسے تو یہ بھی سچ ہے کہ ترکی خود بہت خوبصورت ملک ہے اور لوگ تمام دنیا سے یہاں سیاحت کیلئے آتے ہیں۔ یہاں اسلامی تاریخ کی نشانیاں بھی مجسم ہیں۔ کئی صدیوں پہلے تعمیر کی جانے والی عمارتیں آج بھی اسلامی تعمیرات کی شاندار روایات کی نشاندہی کرتی ہیں لیکن یہ دنیا ہے اس کے ہر ہر گوشے کو کوئی نہ کوئی خصوصیت مالک حقیقی نے عطا فرمائی ہے۔ صحرا اپنے اندر ایک تاریخ سمائے ہوئے ہے۔ اس کی تاریخ جانی جائے تو انسان حیرت زدہ ہو کر رہ جائے۔ پہاڑوں کا سلسلہ دنیا بھر میں کوہ پیمائی کے شوقینوں کیلئے ایک عجوبہ ہے کہ اونچائی ہر انسان کو بھاتی ہے۔ بلندی تک پہنچنا ہر ایک کا خواب ہوتا ہے ۔یہ مادی بھی ہوتا ہے اور روحانی بھی، جب ہی بے شمار بزرگ ایسے گزرے ہیں جن کو مالک حقیقی نے قول و فعل کی ایسی بلندی عطا فرمائی جو ہر ایک کا خاصہ نہیں بنتی۔
   عایشین صاحبہ نے بچپن کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اساتذہ کی نصیحت طلبہ و طالبات کی پوری زندگی کیلئے رہنمائی کرتی ہے۔ جب وہ سکینڈری اسکول کیمپس میں تھیں تو انکی پرنسپل نے ایک بات کہی تھی کہ آپ لوگ ہمیشہ یہ بات یاد رکھیں کہ جب آپ تنہا ہوں جب بھی اپنا خیال رکھیں کہ اس وقت کوئی نہیں خالق خود گواہ ہوتا ہے۔ جب اکیلے گھر پر ہوں تو خود اپنے آپ کے ساتھ گھر کو اتنا ہی صاف ستھرا رکھیں کہ اچانک کوئی بھی مہمان آسکتا ہے۔ یہ نہ سوچیں کہ گھر پر جیسے بھی رہیں گے مہمانوں کی آمد پر بالکل اچھے سے رہیں گے، ایسا نہیں ہوتا۔ انسان کو گھر پر بھی نشست و برخاست کی بہترین عادت اپنانی چاہئے کہ جو انسان گھر پر جیسا رہتا ہے لوگوں کے سامنے بھی وہ ویسا ہی ظاہر ہوتا ہے۔ صاف ستھرے اچھے کپڑوں میں رہیں۔ اٹھنے بیٹھنے میں لحاظ رکھیں تاکہ آپ کی عادت ہمیشہ اچھی رہے ۔جو تنہائی میں اپنے اٹھنے بیٹھنے کا خیال رکھتے ہیں وہ خود اعتماد ہوتے ہیں۔
     جناب اسماعیل و بیگم نے یورپ کے کئی ممالک کی سیاحت کی ہے۔انہوں نے تھائی لینڈ اور ملائیشیا کی بھی سیر کی، اٹلی اور سوئٹزر لینڈ بہت زیادہ پسند آئے۔بوسنیا دنیا کا سب سے حسین ملک ہے۔ ہر ہر گوشہ خوبصورتی سے عبارت ہے۔ تاج محل بھی دنیا کے عجائب میں شامل ہے ۔اہرام مصر لوگوں کو پوری تاریخ ازبر کرادیتا ہے ۔جناب اسماعیل اپنی بیگم کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے گھر بھر کو ایک بہترین ماحول فراہم کیا۔ گھر اور بچوں کا بھر پور خیال رکھا ان کی تربیت میں آج انکی تعریف خاندان بھر کے لوگ کرتے ہیں، دونوں صاحبزادیوں کی تربیت میں انکی فراست نظر آتی ہے کہ جہاں آزادی دی ہے وہیں حد بھی مقرر کر دی ہے۔ یہ تربیت کا بہترین طریقہ ہے کہ آپ اپنے بچوں کو ہر کام کرنے کی اجازت دیں لیکن حدود بھی بتادیں۔ جو مضامین وہ چاہیں اپنے لئے منتخب کریں ۔جہاں تعلیم کی غرض سے جائیں یا جاب کے سلسلے میں سفر کرنا ہو تو اپنے آپ کو دعاﺅں کے حصار میں رکھیں۔ یہی سب سے بہترین تربیت ہے۔
     محترمہ عایشین نے شادی بیاہ کی رسومات کا ذکر کرتے ہوے بتایا کہ پہلے جو تیاری گھر پر کی جاتی تھی اب وہ ایسی کمپنی کے حوالے کی جاتی ہے جو ایونٹ کے لحاظ سے تمام مہمانوں کی آمد پر اس جگہ کے تمام انتطامات کو سنبھالتے ہیں جس میں ڈیکوریشن کے بہت نئے طریقے اپنائے جاتے ہیں۔ تمام وہ چیزیں جو دلہن والے دولہا کے گھر یا دولہا والے دلہن کے گھر لیکر جاتے ہیں انکی سجاوٹ کی ذمہ داری بھی انہی کی ہوتی ہے۔ محترمہ عایشین نے اپنے شوہر کے بارے میں بتایا کہ 3 دہائی پہلے انہوں نے ایک سال کیلئے ایک تعلیمی ادارے میں پرنسپل کے طور پر ذمہ داری بھی ادا کی پھر اپنے والد کے کاروبار کی طرف متوجہ ہوگئے کیونکہ کا م اپنا ہے تو مرضی بھی اپنی ہے۔ دنیا بھر کی سیاحت کا شوق ہے اور ہمارا یہ شوق بہت حد تک پورا بھی ہو گیا ہے۔ اسماعیل صاحب نے دونوں صاحب زادیوں کو بھرپور اعتماد دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صاحبزادی زہرہ نے معاشیات میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور ہیومن ریسورسز میں خدمات انجام دے رہی ہیں جبکہ اسرا ایڈووکیٹ ہیں اور اپنی فیلڈ میں جانی جاتی ہیں۔ عایشین صاحبہ نے کہا کہ بچیوں کیلئے اسماعیل صاحب بہت مشفق باپ ہیں۔ وہ اپنی بچیوں کیلئے وقت نکال لیتے ہیں، جہاں بھی جانا ہو، موسم کتنا بھی سخت ہو یا جہاز یا فیری کے اوقات رات کے 3 بجے ہی کیوں نہ ہوں، ہر سفر کو آرام دہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جہاں اپنی دفتری ذمہ داریوں کی وجہ سے سفر ناگزیر ہو وہاں ایئرپورٹ یا فیری یا اسٹیشن لینے یا پہنچانے جاتے ہیں چاہے کتنے ہی تھکے ہوئے کیوں نہ ہوں یا رات کا کوئی بھی پہر ہو ، وہ پہلے سے ہی موجود ہوتے ہیں۔
     عایشین صاحبہ نے کہا کہ شاعر یا مصنف پورے معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں ۔انہیں شاعری پسند ہے جبکہ ان کا کہنا ہے کہ مصنف نجیب فاضل کو اپنی بات کہنے کا فن آتا ہے ۔ انہوں نے غالب کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنا پورا کلام اس ایک شعر کے بدلے مومن خان مومن کے نام کر دینے کی پیشکش کی تھی ۔شعر یہ تھا:

تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
 جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

 

شیئر: