Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

30ملین معتمرین کا ہدف، 6فیصلے ناگزیر

احمد شیخ بافقیہ ۔ عکاظ
سعودی ویژن 2030 نے ہمیں یہ سکھا دیا ہے کہ کسی بھی خواب کو شرمندہ تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ کوئی بھی آرزو بعید از امکان نہیں۔ قد آور نوجوان الہامی قائد ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ہمیں دور تک دیکھنے کی روشنی دے رہے ہیں۔ اس کا تقاضا ہے کہ تمام اداروں کے سارے عہدیدار اپنے قائد کے کارواں کی ہمرکابی کیلئے دن رات محنت کریں۔ جرات مندانہ فیصلوں کے نفاذ میں اپنا کردار ادا کریں۔ ”جلدی اور عمدگی“ کے حسین امتزاج کو اپنی پہچان بنائیں۔ غیر روایتی انداز میں سوچیں اور خود کو اس کا عادی بنائیں۔ فرزندان وطن اور شرکائے وطن کے طورپر کام کریں۔ رکاوٹیں دور کرنے اور چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے تجاویز دیں ۔ میں حج و عمرہ اور لیاقت کے شعبے میں اپنے 30سالہ تجربے کی بنیاد پر یہ بات کہنا چاہوں گا کہ سعودی وژن 2030 میں مذکور (30ملین معتمرین) کا ہدف حاصل کرنے کیلئے نجی اور سرکاری اداروںکو ”مشترکہ جدوجہد“ کرنا ہوگی۔
ہمیں یہ ہدف پورا کرنے کیلئے 6جراتمندانہ فیصلے کرنا ہونگے۔ کام میں بہتری لانے کیلئے قوانین و ضوابط میں بھی ترامیم کرنا ہونگی۔ 
پہلا فیصلہ: ۔ ایک سے زیادہ بار عمرہ ویزا پر مقرر فیس فیصلے کے مثبت اور منفی اثرات کا جائزہ لیا جائے۔ مثبت پہلوﺅں پر زیادہ زور دیا جائے اور منفی عناصر کی اصلاح کی جائے۔ دنیا بھر میں آباد مسلمانوں کو مملکت زیادہ تعدا دمیں آنے کی ترغیب دی جائے ۔ یہ حقیقت مدنظر رکھی جائے کہ جتنے زیادہ معتمرین آئیں گے، اتنا ہی زیادہ سعودی کاروبار کو رواج ملے گا۔ معتمرمملکت آمد پر خطیر رقم خرچ کرتے ہیں۔ 
دوسرا فیصلہ:۔ معتمرین اسلامی تاریخی مقامات اور آثار قدیمہ دیکھنا چاہتے ہیں لہذا سعودی شہروں میں ان کی آمد ورفت کا طریقہ کار مقرر کیا جائے۔ معتمرین میں وہ بھی ہونگے جو سعودی عرب کے نئے سیاحتی مراکز” نیوم “وغیرہ دیکھنا چاہیں گے۔ اس کو بھی مد نظر رکھا جائے۔
تیسرا فیصلہ:۔ مشرق و مغرب کا سفر کرنے والوں کو بھی عمرہ کی سہولت دی جائے۔ ہزاروں مسلمان امریکہ ، کینیڈا اور یورپی ممالک سے ہندوستان، پاکستان اور دیگر ایشیائی ممالک ہر سال آتے جاتے ہیں۔ اگر انہیں 72گھنٹے کا ٹرانزٹ ویزا عمرہ کیلئے جاری کردیا جائے تو اس سے بھی معتمرین کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔ برطانیہ میں مقیم کوئی بھی ہندوستانی مسلمان اپنے رشتہ داروں سے ملنے کیلئے مملکت سے گزرتے وقت عمرہ کا آرزو مند ہوتا ہے۔ یہ لوگ لندن، جدہ ، ممبئی، جدہ ،لندن پروازوں سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ اس طرح کی پروازوں پر صرف السعودیہ کی اجارہ داری نہ ہو۔ دیگر فضائی کمپنیوں کو بھی اس کا موقع دیا جائے۔
چوتھا فیصلہ:۔ معتمرین اور حجاج کی بڑھتی ہوئی تعداد کی رہائش کا مسئلہ حل کرنے کیلئے حرمین شریفین کے اطراف والے مقامات سے باہر ”ٹاورز“ تعمیر کرائے جائیں۔
پانچواں فیصلہ:۔ معتمرین اور زائرین کو خدمات فراہم کرنے کیلئے تقسیم کار کا اصول اپنایا جائے۔ ایک کام کرنے والا ادارہ دوسرے کام کرنے والے ادارے کے کام میں دخیل نہ ہو۔ مثال کے طور پر عمرہ کمپنیاں اور ادارے معتمرین کے استقبال اور انکے ٹرانسپورٹ کا کام انجام دیں۔ اسی طرح کی اور دیگر خدمات انہیں فراہم کریں۔ ہوٹل والی کمپنیاں رہائش کا بندوبست کریں۔ ٹرانسپورٹ کمپنیاں خود کو ”سفر“ کی سہولت فراہم کرنے تک محدود رکھیں۔ وزارت حج و عمرہ ہر ادارے کی کارکردگی پر نظر رکھے۔
چھٹا فیصلہ:۔ وزارت حج و عمرہ معتمرین کی تعداد بڑھانے اور اس شعبے کو منظم کرنے کیلئے جو فارمولے دیتے ہیں انہیں نافذ اور موثر کیا جائے ۔ خصوصاً معتمرین کو آثار قدیمہ اور تاریخی اسلامی مقامات دیکھنے والے فارمولے کو عملی جامہ پہنایا جائے۔
عمرہ کمپنیوں اور اداروں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ 50ادارے 70لاکھ معتمرین کی خدمت کررہے تھے، اب انکی تعداد 700سے تجاوز کر گئی ہے۔ اس اضافے سے موجودہ حالات میں عمرہ شعبے کو نقصان ہوا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: