Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا میں چینی مصنوعات کے بائیکاٹ کامطالبہ کیوں کیا جا رہا ہے؟

انعم تسنیم قریشی 
 
چین نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کالعدم تنظیم جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کو عالمی دہشت گرد قرار دینے کی قرارداد رکوا کر ایک بار پھر پاکستان کا ساتھ دیا جس پر انڈیا کے شہریوں میں چین کے خلاف کافی غم و غصہ پایا جارہا ہے ۔
اپنے جذبات کے اظہار کے لیے انڈین شہریوں نے سوشل میڈیا کامحاذ سنبھالا اور پاکستان کی حمایت پر چینی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چلادی۔ مائیکروبلاگنگ کی ویب سائیٹ ٹوئٹر پر ’بائیکاٹ چائنیز پروڈکٹس ‘ اس وقت ٹاپ ٹرینڈ ہے ۔ 
اویناش ورما نامی صارف نے لکھا کہ ’یہ وقت ہے کہ ہم متحد ہوجائیں اور چینی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں تاکہ چین کو معاشی طور پر جھٹکا لگے اور وہ انڈیا کی عوام کی طاقت یاد رکھے۔‘
ایک اور صارف منموہن ماتھرنے لکھا کہ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ میں چین پاکستان سے زیادہ بڑا خطرہ ہے، میراماننا ہے کہ انڈیا کواپنے  شہریوں کی حفاظت کا پورا حق ہے اس لیے ہمیں چین پر دباؤ ڈالنے کے لیے چینی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا ہوگا۔ ‘
پی کے شرما نامی صارف نے تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ’اگر نہرو نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت چین کو نہ دیتے تومسعود اظہر پر پابندی لگانے کے لیے انڈیا کو پہلی کوشش میں ہی کامیابی مل جاتی۔ ‘
موتھو سوامی نے انڈین وزیراعظم، وزیرخارجہ، وزیرخزانہ سے اپیل کی کہ ’ برائے مہربانی، چینی مصنوعات درآمدات پر پابندی عائد کی جائے۔‘
  • ’پہلے اپنے سمارٹ فونز پھینکیں،پھر مہم چلائیں‘
سوشل میڈیا پر جہاں انڈین صارفین چینی مصنوعات کے بائیکاٹ کا پُرزورمطالبہ کررہے ہیں وہیں کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے بائیکاٹ مہم چلانے والوںکو ہی طنز کا نشانہ بناڈالا۔
ہرینی کلامر نے لکھا کہ ’لوگ اپنے چین کے تیارکردہ موبائل فونزاور لیپ ٹاپ سے ’بائیکاٹ چائنہ پروڈکٹس‘ کی مہم چلارہے ہیں۔‘
کے سیروتونن کے نام سے ٹوئیٹر ہینڈل نے لکھا کہ ’تسلی رکھیں ، پہلے اپنے سمارٹ فونز پھینکیں ، اپنے کرکٹرز سے کہیں کہ وہ چین کی سپانسر کردہ ٹی شرٹس پہن کر میدان میں نہ اتریں ، اصل حب الوطنی کا مظاہرہ کریں، کی بورڈ سپاہی نہ بنیں۔‘
  • کیا چینی مصنوعات کابائیکاٹ ممکن ہے؟
اس سے پہلے بھی کئی بار پاکستان کی حمایت پر ہندو انتہا پسند تنظیموں کی جانب سے چینی سامان کے بائیکاٹ کا اعلان کیا گیا تھا اور سوشل میڈیا پر بھی مہم کا آغاز کیاگیا تھا تاہم، اس مہم کو صرف سوشل میڈیا تک ہی پذیرائی مل سکی تھی عملی طور پریہ مہم کامیاب نہ ہوسکی۔ 
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سی پیک، سلامتی کونسل میں مسعود اظہر کے خلاف قراردار رکوانے پر اختلاف اور ڈوکلام تنازعے کے باوجود چین انڈیا کا سب سے بڑا کاروباری شراکت دار ہے، انڈیا کے بازاروں میں چینی سامان بھرا پڑا ہے یہاں تک کہ انڈیا کے  کئی مندروں میں موجود مورتیاں بھی چین میں ہی تیار ہوتی ہیں۔
واضح رہے کہ انڈیا نے گذشتہ مالی سال 2017-18میں چین سے 76.4ارب ڈالر کی درآمدات کی تھیں جبکہ برآمدات کاحجم 13.4ارب ڈالر تھا۔ اس طرح انڈیا کو چین کے مقابلے میں 63ارب ڈالر کے تجارتی خسارے کاسامنا رہا۔ 
انڈیا کی حکومت ہمیشہ سے چین کے ساتھ تجارت بڑھانے کی خواہشمند رہی ہے، حالیہ مہم پر کسی حکومتی عہدیدار کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ 
 

شیئر: