Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں بارشوں سے آم کی پیداوار متاثر ہونے کا خدشہ

احمد نور
 
آم کو پھلوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے اور پاکستان کے آم اپنی لذت کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔تاہم ماہرین زراعت کو خدشہ ہے کہ موسم سرما میں جاری حالیہ بارشوں سے اس فصل کو نقصان پہنچ سکتاہے۔
ماہر زراعت اور آم کی فصل کے کاشتکار خواجہ شعیب کا کہنا ہے کہ مارچ اور اپریل آم کے پھول نکلنے کا وقت ہوتا ہے اور اگر پھولوں پر بارش پڑے تو فصل پر کیڑے حملہ کر دیتے ہیں جس سے نہ صرف بیماری آتی ہے بلکہ پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے ۔
 انہوں نے کہا کہ اس موسم میں بارش سے آم کی فی ایکڑ پیداوار بھی متاثر ہوتی ہے۔ 
 خواجہ شعیب کا کہنا تھا کہ مارچ میں ہونے والی حالیہ بارشوں سے آم کی پیداوار کو ایک تہائی نقصان پہنچ چکا ہے اور اگر یہ سلسلہ اپریل میں بھی جاری رہتا ہے تو پیداوار آدھی کم ہوجائے گی اور اس کا اثر آم کی برآمد پر بھی پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ضرورت ہے کہ آم کی فصل پر ریسرچ کومزید بہتر کیا جائے ،لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے اس کے لئے حکومتی سطح پر کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے جا رہے ہیں۔
مینگو ریسرچ انسٹیٹیوٹ ملتان کے ڈائریکٹر ڈاکٹر حمید اللہ کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ سے آم کی پیداوار بر ی طرح سے متاثر ہو رہی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ گذشتہ برس بارشوں اور گرمی کی وجہ سے آم کی مجموعی پیداوار میں 50 فیصد کمی آئی اور اگر بارشیں اپریل میں بھی جارہی رہیں تو پیداوار مزید متاثر ہوگی ۔
حمید اللہ نے کہا کہ کم پیداوار سے آم کی برآمد بھی متاثر ہو رہی ہے جو گزشتہ سال ایک لاکھ ٹن سے کم ہو کر اکیاسی ہزارٹن رہ گئی تھی۔ 
ان کے مطابق اگر بارشوں کا سلسلہ اپریل میں جا ری رہتا ہے تو اس کے اثرات آم کی برآمد پر بھی پڑیں گے۔
دوسری طرف محکمہ موسمیات کے ترجمان ڈاکٹر خالد کا کہنا ہے کہ مارچ کے مہینے میں مزید بارشیں ہو سکتی ہیں اور یہ سلسلہ اپریل تک جاری رہنے کا امکان ہے۔
آم کے درخت پر پھول لگنے کا سلسلہ مارچ میں شروع ہوتا ہے جو اپریل تک جاری رہتا ہے  ۔
پاکستان میں کاشت ہونے والے پھلوںکی پیداوار میں آم دوسرے نمبر آتا ہے ۔ اس کی سب سے زیادہ پیداوار پنجاب کے جنوبی علاقوں میں ہوتی ہے، جبکہ سندھ آم کی پیداوار میں دوسرے نمبر پر ہے۔
پاکستان میں آم کی کاشت کے کل رقبے میں سے65 فیصدصوبہ پنجاب میں اور 34.44 فیصد سندھ میںہے۔
 

شیئر: