Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا پی ٹی آئی اتحادی تنخواہیں کم کرنے پر آمادہ ہوں گے

پنجاب کے ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کا کوئی جواز نہیں، تجزیہ
کراچی ( صلاح الدین حیدر ،بیورو چیف) سیاستدان اکثر غلطیاں کرتے ہیں، لالچ میں آجاتے ہیں جن کا خمیازہ انہیں دیر یا سویر بھگتنا ہی پڑتا ہے۔ کبھی کبھی تو اس کی بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے لیکن عمران خان بروقت بڑھتی ہوئی صورتحال پر قابو پاکر اپنی پارٹی کو بدنامی سے بچا لیا۔ حیرت تو اس وقت ہوئی جب پنجاب اسمبلی نے بدھ کے روز ایک بل پاس کیا جس کے تمام ممبران اسمبلی کی تنخواہوں میں 300 فیصد اور اسمبلی کے اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر اور وزیر اعلی کی تنخواہیں اور الائوئنسز میں 250 سے 350 فیصد تک اضافہ کردیا گیا تھا۔ لوگ حیران تھے کہ ایک پارٹی جس نے برسراقتدار آتے ہی قومی خزانے میں کٹوتی کا آغاز کیا۔ خودوزیر اعظم نے اپنی تنخواہ بہت کم رکھی، وزیراعظم ہائوس میں رہنے کی بجائے اپنے گھر میں رہائش اختیار کی اور سرکاری رہائش کی چار دیواری کو محفوظ بنانے کیلئے باڑ لگانے کا خرچہ بھی اپنی جیب سے ادا کیا۔ قومی خزانے سے کسی قسم کا الائونس یا مراعات لینے سے انکار کیا۔ ظاہر ہے کہ انہیں اس خبر سے اچنبھا ہوا اور انہوں نے دوسرے ہی دن ٹوئٹ کے ذریعے اپنی مایوسی اور ناپسندیدگی کا اظہار کیا کہ ایک ایسے ملک میں جہاں عوام کی بہت بڑی اکثریت کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں وہاں ممبران اسمبلی جو عوام کی خدمت کا ووٹ لے کر منتخب ہوئے تھے خود اپنی ذات کو غریبوں کی ضروریات پر ترجیح دی۔ غصے میں انہوں نے ممبران اسمبلی کو یاددہانی کروائی کہ وہ کسی ایسی حرکت سے باز رہیں جس سے عوام میں پارٹی کو پذیرائی کے بجائے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے۔ صوبائی وزیر اعلی کی تنخواہیں 4,50,000 سے زیادہ، اسپیکر کی 3,50,000 سے زائد، ڈپٹی اسپیکر کی 2,75,000 کے قریب اور ممبران کی تنخواہ 45,000 سے بڑھا کر 1,80,000 ہوگئی۔ ظاہر ہے کہ ایک غریب ملک اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اسمبلی کے ارکان کی بھاری اکثریت کاروباری، رئوسا اور امراء کے طبقوں سے تعلق رکھتی ہے۔ ان کیلئے اسمبلی کا ممبران ہونا ہی اعزاز ہے ناکہ پیسے کا لالچ کیا جائے۔ عمران خان نے یاد دلایا کہ وزراء کی تنخواہیں 2,50,000 ہے جبکہ خود ان کی اپنی تنخواہ وزراء سے بھی کم ہے۔
صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت نے یہ کہہ کر بات ختم کردی کہ بل چونکہ اچانک پیش کیا گیا تھا اور دونوں طرف سے کسی نے بھی مخالفت یا ترمیم نہیں کی اس لیے فوراً ہی پاس کردیا گیا۔ عمران کے نزدیک یہ شرم کی بات تھی، اب کیا یہ بل واپس ہوگا۔ اسے اسمبلی کیا رد کرپائے گی۔ یہ تو دیکھنا ہے۔ حکومتی ارکان تو خیر پارٹی ڈسپلن کے تحت شاید مان جائیں لیکن اپوزیشن کیسے مانے گی لیکن اسمبلی میں بل معمولی اکثریت سے پاس ہوجاتا ہے تو تحریک انصاف کو کوئی زیادہ دقت نہیں اٹھانی پڑے گی اسے رد کرنے میں لیکن کیا چوہدری پرویز الٰہی یا پی ٹی آئی کی دوسرے اتحادی بھی اس بات پر راضی ہوجائیں گے۔ یہ بظاہر ٹیڑھا سوال ہے۔
 
مزید پڑھیں:- - - - -مہربانی ہمیشہ پلٹ کر آتی ہے

شیئر: