Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

معراج نبیﷺ اور مقامِ حضرتِ انسان

 اللہ تعالیٰ تو حضور   کو اپنا بندہ کہہ رہا ہے اور ہم کہیں کہ حضور  تو اللہ کے نور کا حصہ ہیں، یہ عقیدہ قرآن کریم اور سنت نبویہ وآثارِصحابہؓ  کیخلاف ہے
 
عبدالمنان معاویہ ۔ مدینہ منورہ
حق جل مجدہ نے اپنی جملہ مخلوقات میں حضرت انسان کو سب پر فضلیت بخشی ۔ساری مخلوقات پر فضلیت کی وجہ علم وعقل بھی ہے لیکن ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب سیدنا محمد رسول اللہ   کو جنس بشریت میں پیدا فرمانا تھا اسی لئے حضرت ِانسان کو جملہ مخلوقات پر فضیلت دی اور یہ بات عقائد اہل سنت والجماعت میں شامل ہے کہ انبیائے کرام ؑ سب جنس بشر سے ہوتے ہیں۔ بعض علماء جو اپنی نسبت فقہ حنفی کی جانب کرتے ہیں لیکن ائمہ احناف کے متفقہ فیصلوں سے روگردانی کرتے ہوئے برملا تقریروں اور تحریروں میں انبیائے کرام ؑ کے بشر ہونے کا انکار کرتے ہیں اور انبیاء کو نور الٰہی قرار دیتے ہیں حالانکہ اس عقیدہ کے موجد ’’روافض ‘‘ہیں۔ ان کی ایک خاص مجبوری تھی جسکے ذکر کی یہاں گنجائش نہیں لیکن احناف کی طرف نسبت کرنے والوں نے صرف علمائے اہل حق کی مخالفت میں یہ عقیدہ بنا لیا کہ انبیائے کرام ؑ بشر نہیں ہوتے بلکہ وہ لبادۂ بشری میں ہوتے ہیں یعنی ظاہری بشر ہوتے ہیں جیسے اُنکے پیشوا جناب احمد رضا خان صاحب بریلوی نے اپنے ترجمہ قرآن بنام’’ کنزالایمان ‘‘ میں صریحاً کئی مقامات پر یہ لکھا ہے کہ انبیائے کرام بشر نہیں ہوتے اور آیت قرآنی ’’ قل انما انا بشر مثلکم‘‘کا ترجمہ یوں کرتے ہیںکہ ’’ میں ظاہری طور پر تمہاری طرح بشر ہوں۔ ‘‘
    اب ’’ظاہری ‘‘کسی بھی عربی لفظ کا ترجمہ نہیں لیکن اعلیٰ حضرت ایسے ہی ہوتے ہیں اور انکے چاہنے والوں کا بھی کیا کہنا ہے کہ وہ قرآن کریم کی لفظی تحریف تو برداشت کرتے ہیں لیکن اعلیٰ حضرت کی توہین برداشت نہیں کرسکتے۔ اگر کسی صاحب کو اس معاملہ میں مزید تحقیق درکار ہو تو وہ محدث کبیر مفسر جلیل علامہ سرفراز خان صفدرؒ کی کتاب ’’تنقید متین برتفسیر نعیم الدین ‘‘اور شہید ناموس صحابہ ؓ علامہ احسان الٰہی ظہیر ؒ کی کتاب ’’البریلویہ ‘‘اردو کا مطالعہ کرسکتا ہے۔ ہم نے یہ اجمال اسلئے درج کی کہ جب ہم نے سورۃ الاسراء کا مطالعہ کیا تو وہاں اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں :
    پاک ذات ہے جو لے گیا اپنے بندے کوراتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک جس کو گھیر رکھا ہے ہماری برکت نے تاکہ دکھلائیں اس کو کچھ قدرت کے نمونے ،وہی ہے سننے والا دیکھنے والا۔‘‘(آیت1)۔
    اس آیت میں عبد ہ سے مراد حضرت نبی اکرم کی ذات بابرکات ہے۔ اللہ تعالیٰ تو حضور   کو اپنا بندہ کہ رہا ہے اور ہم کہیں کہ نہیں جناب حضور  تو اللہ کے نور کا حصہ ہیں اور نور من نور اللہ ہیں تو یہ عقیدہ سراسر قرآن کریم اور سنت نبویہ وآثارِصحابہؓ کیخلاف ہے لیکن اس غلط فہمی کا ازالہ بھی ضروری ہے کہ اگر نور سے مراد ہدایت ہو تو حضور  سراپا ہدایت تھے بلکہ آپ  تو سرچشمۂ ہدایت تھے۔ منبع فیض ومرکزہدایت آپہی کا وجود مسعود تھا۔ اس معنیٰ میں اگر کوئی کہے کہ آپ نور ہیں تو کوئی حرج نہیں کیونکہ اس میں آپکی جنس بشریت کا انکار نہیں ۔
    مکتبہ بریلوی کے نامور عالم ومفسر علامہ غلام رسول سعیدی صاحب نے کیا خوب فرمایا ہے :
    ’’ تمام ا نبیاء علیہم السلام اللہ تعالیٰ کے کامل عبد ہیں لیکن سیدنا محمد  اللہ تعالیٰ کے کامل ترین عبد اور محبوب عبدہیں۔ اس آیت میں یہ فرمایا سبحان ہے وہ جو اپنے عبد کو رات کے ایک قلیل وقت میں لے گیا۔ ایک سوال یہ ہے کہ رسول  کاذکر کیوں نہیں کیا ؟یوں کیوں نہیں فرمایا سبحان ہے وہ جو اپنے رسولکو لے گیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ رسولوہ ہیں جو اللہ کے پاس سے بندوں کی طرف لوٹ آئے اور وہ عبد ہے جو بندوں کی طرف سے اللہ کے پاس جائے اور یہ اللہ کے پاس سے آنے کا نہیں اللہ کی طرف جانے کا موقع تھااسلئے یہاں رسول کا ذکر نہیں عبد کا ذکر مناسب تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰؑ کے متعلق فرمایا :
    (اے ذکریاؑ) اللہ آپکو یحییٰ کی بشارت دیتا ہے جو (عیسیٰؑ) کلمۃ اللہ کے مصداق ہونگے اور سردار ہونگے اور عورتوں سے بہت بچنے والے ہونگے ۔‘‘(آل عمران39)۔
    حضرت یحییٰ  ؑکو سید کہا اور ہمارے پیارے نبی کو عبد فرمایا اِس کی کیا وجہ ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ سیادت ،سلطنت اور مالکیت حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں بندے کو اگر سید یا مالک یا صاحب ِسلطنت کہا جائے تو یہ مجاز ہوگا اور بندے کی ایسی صفت جو اس کی حقیقی صفت ہو اور اللہ تعالیٰ کی نہ ہو وہ صرف عبدیت ہے تو اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ اپنے محبوب کا ذکر حقیقی وصف کیساتھ کرے۔ مجاز اور مستعار وصف کیساتھ نہ کرے اور فضیلت ِ حقیقی وصف میں ہے مجاز اور مستعار میں نہیں (تبیان القرآن)۔
    علامہ غلام رسول سعیدی صاحب نے واضح تحریر فرمادیا کہ حضور   کا وصفِ خصوصی ’’عبد ‘‘ہونے میں ہے ۔حضرت انسان کی خاص فضلیت جو آیتِ ہذا سے واضح ہوتی ہے وہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نسلِ آدم سے فخر بنی آدم،امام الانبیاء کو معراج کرائی اور فرش سے عرشِ بریں پر بلایا، جنت وجہنم کی سیر کرائی اور پھر اُس مقام تک آپکی رسائی ہوئی کہ جبرئیل ؑ بھی اُس مقام سے آگے نہ جاسکے لیکن حضور  وہاں پہنچے جہاںنوری نہ جاسکے ۔
     آیتِ مذکور سے ایک اور باطل عقیدے کا رد ہوتا ہے جو دراصل عیسائیت سے بعضے لوگوںنے مستعار لیا ،وہ ہے ’’حاضرناظر ‘‘ کا عقیدہ لیکن آیت ہذا نے اس باطل عقیدہ کی جڑیں کاٹ کر رکھ دیں کہ اگر حضور ہر جگہ حاضرو ناظر ہوتے تو آیتِ ہذا کی ضرورت ہی نہ تھی اورحاضرو ناضر کا عقیدہ معراجِ جسمانی کی نفی ہے جو کہ نصوص قطعیہ اور ادلہ شرعیہ سے ثابت ہے ۔قرآن وسنت اور اجماعِ امت میں سے کسی ایک شئے کا منکر دائرہ ٔدین سے خارج ہوتا ہے اور پھر عقیدہ قرآن حکیم ،صحیح احادیث سے ثابت ہوتا ہے نہ کہ ظن وبزرگوں کے واقعات سے جس میں مبالغہ آرائی حد سے تجاوز کی ہوئی ہوتی ہے ۔
    آیت درج بالا کی تفسیر میںشیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی امویؒ  تحریر فرماتے ہیں :
    ’’علماء کی اصطلاح میں مکہ سے بیت المقدس تک کے سفر کو ’’اسراء ‘‘ اور وہاں سے اوپر ’’ سدرۃ المنتہی ‘‘ تک کی سیاحت کو ’’معراج ‘‘کہتے ہیں اور بسا اوقات دونوں سفروں کے مجموعہ کو ایک ہی لفظ ’’اسراء‘‘یا ’’معراج‘‘سے تعبیر کیا جاتا ہے۔معراج کی احادیث تقریباً 30 صحابہ ؓ سے منقول ہیں جن میں معراج واسراء کے واقعات بسط وتفصیل سے بیان ہوئے ہیں ۔جمہور سلف وخلف کا عقیدہ یہ ہے کہ حضورپُرنور کو حالت بیداری میں بجسدہ شریف معراج ہوئی ۔ ‘‘(تفسیر عثمانی )۔         
    معراجِ جسمانی کا عقیدہ جملہ اہل اسلام کا ہے، اس میں کسی کواختلاف نہیں لیکن ایک بات جو باعث ِنزاع ہے وہ یہ کہ حضور نے اللہ تعالیٰ کا دیدار کیا یا نہیں… ؟
    اس بارے میں محدث ومفسر امام ابن کثیرؒ  تحریر فرماتے ہیں کہ:
    ’’بعض حضرات نے کہا کہ رسول اللہ نے اُس رات اللہ عزوجل کو دیکھا لیکن حضرت عائشہ ؓ ،حضرت ابن مسعودؓ ،حضرت ابوہریرہ ؓ ان آیتوں کو اس پر محمول کرتے ہیں کہ آپنے حضرت جبرئیل  ؑ کو دیکھا یہی زیادہ صحیح ہے اور امام بیہقی  ؒ کا فرمان بالکل حق ہے ا ور روایت میں ہے کہ جب آپسے حضرت ابوذرؓ نے سوال کیا کہ کیا آپنے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے ؟ تو آپنے فرمایا ’’وہ نور ہے ،میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں ؟ ۔‘‘اور ایک روایت میں ہے کہ ’’میں نے نور دیکھا ہے۔ ‘‘
    بعض علماء نے کہا ہے کہ آنحضور  حضرت ام ہانی ؓ کے گھرآرام فرماتھے، وہیں سے آپکو معراج کا سفر درپیش آیا لیکن اہل تحقیق علماء کی رائے اسکے برخلاف ہے، اُ ن کا کہنا ہے کہ آپ کعبہ مشرفہ میں آرام فرما تھے۔ 
    حضرات فلاسفہ ومتکلمین کیجانب سے سوال اٹھایا گیا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص رات کے کچھ حصہ میں ساتوں آسمان کی سیر کرلے اور جنت وجہنم کی سیر کرلے ؟
    اس کا جواب حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے دیا ،فرماتے ہیں:
    ’’ جولوگ حضور کے عروجِ صوری یعنی عروجِ آسمانی کا انکار کرتے ہیں اور اس معراج کو منامی (خواب) یا کشفی بتلاتے ہیں سو یہ بالکل نصوص کے خلاف ہے بلکہ احادیث مشہور سے آپ کا آسمان پر تشریف لے جانا ثابت ہے اور بیت المقدس تک تشریف لے جانا نصِ قرآنی سے ثابت ہے جس کا انکار بلاتاویل کفر ہے اور بتاویل بدعت ،ان منکر ین معراج جسمانی کے پاس کچھ دلائل توعقلی ہیں اور کچھ نقلی ۔عقلی دلائل تو یہ ہے کہ اس سے افلاک میں خرق والتأم (پھٹنااور ملنا) لازم آتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ فلاسفہ کے پاسخرق والتأمپر کوئی دلیل نہیں اور جب وہ دلائل پیش کریں گے تو اُس وقت انشاء اللہ ہم ان سب کا لغو اور باطل ہونا ظاہر کردیں گے چنانچہ متکلمین اس سے فارغ ہو چکے ہیں۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ جس طرح حضورکی معراج کا قصہ احادیث میں آتا ہے کہ آپ اتنی جلدی سیر سماوات سے فارغ ہوکر واپس آگئے کہ صبح بھی نہ ہونے پائی تھی ،یہ محالات سے ہے کہ مکہ سے بیت المقدس تک اور پھر وہاں سے ساتویں آسمان تک آپ سیر کرآئیں اور یہ سارا قصہ ایک رات کے تھوڑے حصے میں ہوجائے۔ہم کہتے ہیں کہ اس میں استحالہ (محال ہونے ) کی کیا بات ہے...؟
    ہاں استبعاد ہوسکتا ہے کہ وہ بھی بطور الزام کے اس طرح مدفو ع ہے کہ تمہارے نزدیک زمانہ حرکتِ فلک الافلاک کانام ہے چنانچہ رات اور دِن کا آنا ،طلوع وغروب ہونا یہ سب حرکتِ فلک (آسمان ) سے مرتبط ہے۔ اگر حرکتِ فلک موقوف ہوجائے تو جووقت موجود ہوگا وہی رہے گا۔ اگر رات موجود ہوگی تورات ہی رہے گی، دن موجود ہوگا تو دن ہی رہے گا تو ممکن ہے کہ حق تعالیٰ نے اُس رات حرکتِ فلک کو تھوڑی دیر کیلئے موقوف کردیا ہو اور اس میں کچھ تعجب نہیں۔ معزز مہمان کی عظمت ظاہر کرنے کیلئے دنیا میں بھی یہ قاعدہ ہے کہ جب بادشاہ کی سواری نکلتی ہے تو سڑک پر دوسروں کا چلنا بند کردیا جاتا ہے ۔ہم حیدرآباد گئے تو ایک دن دیکھا کہ پولیس کے سپاہی لوگوں کو سڑک پر چلنے سے روک رہے ہیں، اُسوقت سڑک پر سناٹا چھایا ہواتھا، معلوم ہوا کہ نواب صاحب کی سواری نکلنے والی ہے۔ اس طرح حق تعالیٰ نے حضور کی عظمت ظاہر کرنے کیلئے اگر آسمان اور چاند سورج سب کی حرکت کو اُس رات کچھ دیر کیلئے بند کردیا ہو کہ جو چیز جہاں ہے وہیں رہے(اشرف الجواب ) ۔  
     یہ بات بھی عرض کردی جائے کہ معراج النبیکی تاریخ کے بارے میں بھی روایات مختلفہ ہیں،مثلاً طبقات ابن سعد میں علامہ ابن سعد ؒ نے 2روایات درج کی ہیں:
    ٭17رمضان یوم شنبہ اور دوسری روایات
    ٭ 17ربیع الاول (طبقات ابن سعد)۔
    قاضی سلیمان منصورپوری ؒ ایک صاحب تحقیق سیر ت نگار ہیں، انہوں نے لکھا ہے :
    ’’27رجب10نبوت کو معراج ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے نبیکو ملکوت السّمٰوات والارض کی سیر کرائی۔ اول مسجد الحرام سے بیت المقدس تک تشریف لے گئے ،وہاں امام بن کر جماعتِ انبیاء علیہم السلام کو نماز پڑھائی پھر آسمان کی سیر کرتے اور انبیاء سے ان کے مقامات پر ملتے ہوئے ’’سدرۃ المنتہیٰ ‘‘تک پہنچے اور وہاں سے قربِ حضوریٔ خاص حاصل ہوا اور گوناگوں سے مشرف ہوئے ۔شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے تحریر فرمایا ہے:
     ’’نبی کو مسجد اقصیٰ تک پھر سدرۃ المنتہیٰ تک اور پھر جہاں تک اللہ نے چاہا سیر کرائی گئی۔ یہ سب کچھ جسم کے ساتھ بیداری میں تھا لیکن یہ ایک مقام ہے جو شامل اور شہادت کے درمیان برزخ ہے اور ہر دو عالم مذکورہ کے احکام کا جامع ہوتا ہے، پس جسم پر روح کے احکام ظاہر ہوئے اور روح اور معانی نے جسم قبول کرکے تمثیل اختیار کیا اسی لئے ان واقعات میں سے ہر واقعہ کی ایک حقیقت ہے ۔‘‘(رحمۃ اللعالمین)۔
    اب ہم دیکھتے ہیں کہ آیتِ مذکور سے حضرت انسان کو کیا رتبہ ملا کہ ’’بشر کامل ‘‘گھر میں یا کعبہ مشرفہ میں آرام فرما ہیں اور نوری مخلوق یعنی ملائکہ آتے ہیں کہ حضرت چلئے ،آج آپ  کو حق جل مجدہ نے وہاں بلوایا ہے جہاں آپ سے قبل کوئی نبی یا رسول انسانوں یا ملائکہ میں سے نہیں پہنچا۔ اب یہ بات تو اہل عقل کیلئے جائے غور وفکر ہے کہ جسے لینے نوری آئیں اب وہ افضل ہے یا جو لینے آئے ہیں وہ افضل ہیں؟
    اگر نوری افضل ہوتے تو انہیں نہ بھیجا جاتا لیکن نوری افضل نہیں تھے بلکہ افضل بشر تھا اور پھر سیدنا آدم ؑ کو جب ملائکہ سے سجدۂ تعظیمی کروایا گیا اُس وقعہ سے بھی بشر کی افضیلت کا پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سب سے افضل انسان ہے باقی سب اس سے کم رتبہ ہیں اسی لئے تو کہا گیا ہے کہ:
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفیسے مجھے
کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں
    لیکن کیا کیا جائے اُن دوستوں کا جو قرآن کریم،سنت نبویہ ؐ  اور آثار ِصحابہؓ سے ہٹ کر عقیدہ بنائیں۔ ہم بس اُن کیلئے صدق دِل سے دعا کرسکتے ہیں کہ اللہ جل شانہ ہمارے اُن دوستوں کو بھی صراط مستقیم پر چلائے۔
     عز یز دوستو ! صراط مستقیم سے ہٹنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنا تقریباً ترک کردیا ہے۔ ہمارے اذہان میں یہ تصور ات جم گئے ہیں کہ قرآن کریم کو سمجھنا ہمارا کام نہیں بلکہ علمائے کرام کا کام ہے حالانکہ یہ غلط تصور ہے، پھر کہا جاتا ہے کہ قرآن کریم کو سمجھنے کیلئے کئی علوم پڑھے جائیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں لیکن علمائے دین نے اردو زبان میں کئی تفاسیر لکھی ہیں جو نہایت مستند ہیں، مثلاً مفتی محمد شفیع عثمانی ؒ کی تفسیر ’’معارف القرآن‘‘ نہایت سہل اور شستہ زبان میں ہے، اُس کا مطالعہ ایک عام شخص کیلئے نہایت مفید ہے ۔اگر ہم نے قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنا شروع کردیا تو انشاء اللہ توہمات ،رسومات اور اہل باطل کے باطل ہتھکنڈوں سے ہم بچ جائیں گے ۔
    اس سورت کاآغاز ہمیں حضرت انسان کے مقامِ رفیعہ کا پتہ دیتا ہے ہاں بات حضرت محمدرسول اللہ کی ہورہی ہے لیکن جب ہم تفصیل میں جائیں تو پتہ چلے گا کہ جیسے حضور کی نسبت رکھنے والی ہر شئے اپنی جنس سے بلند ہے ،مثلاً کتب ِ سماویہ میں سب سے افضل ’’قرآن کریم ‘‘جو حضور پہ نازل ہوا ،جیسے انبیائے کرام  ؑ کی جماعت کے بعد سب انسانوں سے افضل حضور کے’’ صحابہ کرام ؓ  ‘‘ ہیں۔ سب عورتوں میں افضل حضور کی ’’ازواج مطہراتؓ وبناتِ طیبات ؓ  ‘‘ہیں ایسے ہی جنس بشر کی افضلیت ورفعت حضور کی نسبت کی وجہ سے ہے جیسے انبیائے سابقین ؑ کی نبوتیں حضور کی نبوت پر ایمان لانے اور حق تعالیٰ سے یہ وعدہ فرمانے کہ اگر اُن کے زمانے میں حضور  مبعوث ہونگے تو وہ آپ پر ایمان بھی لائیں گے اور آپ کی نصرت بھی کریں گے، اس اقرار کے بعد ملیں۔ایسے ہی جنس انسانیت کی سب پر افضلیت بھی حضور کیوجہ سے ہے ۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن کریم کو سمجھنے اوراہل حق کے دامن سے وابستہ ہونے اور پھرراہ حق پر استقامت عطا فرمائے ،آمین۔  
 

شیئر: