Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

داعش کی دستاویزات میں سعودیوں کے نام

عبداللہ الجمیلی ۔ المدینہ
داعش نامی تنظیم میں (759) سعودی شامل ہوئے۔ یہ مملکت کے بیشتر علاقوں سے تھے۔ سب کے سب نوجوان تھے۔ انکی اوسط عمر 24 برس سے کم تھی۔ لہذا کہہ سکتے ہیں کہ داعش میں شامل ہونے والے بیشتر سعودی نوجوانوں کی نشوونما 11ستمبر 2001ءکے بعد ہی ہوئی۔ یہ دہشتگردی کیخلاف عسکری اور فکری جنگ کے دورانیہ کی پیداوار ہیں۔ ایسے ماحول میں انتہا پسندوں نے انہیں اپنی صفوں میں شامل کیا اور 11ستمبر 2001ءسے پہلے کے مقابلے میں زیادہ تعداد کو اپنا بنایا۔ 
امیرفیصل اسلامک اسٹڈیز اینڈ ریسرچ سینٹر میں سیکیورٹی اسٹڈیز یونٹ کے سربراہ اور اسکالر شہزادہ ڈاکٹر عبداللہ بن خالد بن سعود الکبیر نے مذکورہ نتائج کا اظہار اپنے ایک لیکچر میں کیا۔ لیکچر کا عنوان بڑا دلچسپ تھا۔ ”داعش کی دستاویزات میں مذکور غیر ملکی جنگجوﺅں میں سعودی عرب سے تنظیم کا رخ کرنے والوں کا تجزیاتی مطالعہ“ اسکالر وں کا کہناہے کہ عقبی راستے سے جاری کردہ داعشی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشتگرد تنظیم داعش میں جتنے غیر ملکی جنگجو شامل ہوئے ان میں سے بیشتر کی دینی ثقافت معمولی درجے کی تھی۔ یہ ماضی کے مقابلے میں زیادہ انتہا پسند اور زیادہ تیزی سے متاثر ہوئے۔ اس سے اسکالر نے ا پنے لیکچر میں یہ بھی بتایا کہ داعش میں شامل ہونے والے اکثر ملکی حالات حاضرہ سے متاثر ہوکر انتہا پسند بنے۔ جنگ، تشدد ، عدم استحکام اور امن کے فقدان نے انتہا پسندی کو پروان چڑھایا جبکہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذرائع نے ربط و ضبط اور انتہا پسندانہ رجحانات کو قابل قبول بنانے میں آسانی پیدا کی۔ یہ سہولتیں ماضی میں مہیا نہیں تھیں۔
مذکورہ مطالعہ کی انفرادیت یہ ہے کہ اسکی تیاری میں خود ”داعش“ کی جاری کردہ دستاویزات پر انحصار کیا گیا ہے۔ اس تناظر میں اس کے نتائج اور آرااہم بھی ہیں اور مختلف بھی۔ انتہا پسندی کیخلاف ٹھوس فکری جنگ میں انحصار کیا جاسکتا ہے۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ گزشتہ برسوں کے دوران جو دسیوں کانفرنسیں اور سیمینار ہوئے ۔ دہشتگردی او رانتہا پسندی کی بابت بہت سارے ”مطالعات“ کئے گئے۔ ان سب نے جتنی سفارشات جاری کیں وہ نظریاتی تھیں۔ حرف مکررکے دائرے میں آتی تھیں۔ انکی شروعات (فریب خوردہ نوجوانوں) کے بیانیہ سے کی جاتی اور اسی پر بات لپیٹ دی جاتی تھی جبکہ اس حوالے سے ذہن و دماغ میں آنے والے جائر مدلل ، معقول اور جائز سوالات کا کوئی جواب نہ دیا جاتا۔ مثلاً یہ سوال کہ آخر دہشتگرد تنظیمیں نوجوانوں کی زندگی میں کس طرح گھر کررہی ہیں؟ ان کے دماغ پر اپنا سحر کیونکر چلا دیتی ہیں؟ انہیں مسلمہ دینی اصولوں اور انکی اقدار کا باغی کس طرح بنا دیتی ہیں؟انہیں ”کافر ساز“، ” موت کا دیوانہ“ اور زندگی بےزار بنانے میں کیونکر کامیاب ہورہی ہیں؟
آخری بات یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ انتہا پسندانہ اور دہشتگردانہ افکار کیخلاف مشن اس وقت تک کامیاب نہیں ہوگا تاوقتیکہ تمام متعلقہ ادارے ٹھوس بنیادوں پر کام کا عزم نہیں کریں گے۔ انہیں ”مذمت“ والا انداز ترک اور سازش کا الزام بند کرنا ہوگا۔ شفاف مدلل مکالمے، حقائق تسلیم کرنے اور سننے سنانے کا راستہ اپنانا ہوگا۔ ردعمل سے گریز کرنا ہوگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 
 

شیئر: