Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہندوستان او رپاکستان ایٹمی حملے سے کب تک باز رہیں گے؟

ھدی الحسینی ۔ الشرق الاوسط
حالیہ ایام میں پاک و ہند کے درمیان بھڑکنے والے بحران کے شعلے ابھی تک گرم ہیں۔ گزشتہ مہینے ہندوستان کے زیرقبضہ کشمیر میں 40 ہندوستانی فوجیوں پر خودکش حملہ اس بحران کا باعث بنا تھا۔ اس خودکش حملے نے ایٹمی ہتھیار سے لیس 2پڑوسی ملکوں کے درمیان مستقبل میں کشمکش کیا رنگ ڈھنگ اختیار کرے گی، اس حوالے سے تشویش کی لہر دوڑا دی۔
حالیہ محاذ آرائی کے حوالے سے جیش محمد نے جس کا صدر دفتر پاکستان میں ہے، خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا اعلان کیا۔ جیش محمد کی جڑیں کشمیر کی ایک اور سرگرم اور شدت پسند جماعت سے ملی ہوئی ہیںجسے حرکت المجاہدین کہا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ القاعدہ تنظیم سے اسکا رشتہ ناتہ ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جیش محمد کے کمانڈر نے ہی ہندوستانی فوجیوں کے خلاف خودکش حملے کا حکم جاری کیا تھا۔ وہ پاکستان کے ایک آرمی اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ اس قسم کی اشتعال انگیزیوں کے بعدہندوستانی لیڈر وں کوہمیشہ مشکل فیصلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انکے سامنے خطرناک فوجی گرما گرمی سے بچ کر جوابی کارروائی کا مشکل فیصلہ ہوتا ہے۔ خطرناک گرما گرمی کا نتیجہ ایٹمی اسلحہ کے استعمال کی صورت میں بھی برآمد ہوسکتا ہے۔ اس مرتبہ دھمکی ہند کی جانب سے آئی۔ ہندوستان کے وزیر ٹرانسپورٹ نتن گڈکری نے دھمکی دی کہ ہندوستان دریائے سندھ کے معاہدے کے بموجب پاکستان کیلئے مخصوص دریا کے پانی کا بہاﺅ بند کردے گا اور اندرون ملک اسے استعمال کرلیا جائیگا۔ ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ ہندوستانی فوج دشمن کی کارروائی کے جواب کےلئے جگہ ، وقت ، طاقت کا تعین کرنے میں پوری طرح سے آزاد ہوگی۔
اس مرتبہ نئی بات یہ ہوئی کہ ہندوستانی وزیراعظم نے فوج کا سہارا لیا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ نظیر بن جائے اور مستقبل میں برپا ہونے والے بحرانوں کے جواب کا فیصلہ شہری قیادت کے بجائے فوجی قیادت کرے۔ یہ چیز پاکستان میں پہلے سے موجود ہے۔
ہندوستانی فوج نے 26فروری کو جیش محمد کے تربیتی کیمپو ںپر گولہ باری کی صورت میں خودکش حملے کا جواب دیا۔ پہلی بار ہندوستانی افواج نے پاکستانی سرحدیں عبور کیں۔ پاکستان نے جوابی کارروائی میں کنٹرول لائن پار فضائی حملہ کیا ۔ فضائی جھڑپیں 1971ءکے بعد اپنی نوعیت کی یہ پہلی تھیں۔ پاکستانی افواج نے ایک ہندوستانی طیارہ گرا کر اس کے ہواباز کو قید کرلیا اور پھر یکم مارچ کو اسے رہا بھی کردیا ۔ مغربی فوجی تجزیہ نگار کا کہناہے کہ تازہ بحران صحیح معنوں میں اس امر کی یاد دہانی کرا رہا ہے کہ ایسا کوئی قانون نہیں پایا جاتا جس میں یہ بات تحریر ہوکہ ایٹمی طاقتیں ایک دوسرے سے روایتی انداز میں جنگ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتیں۔ مہم جوئی کا رخ کرنے کی بات مودی کی طرف سے زیادہ کھل کر سامنے آئی۔ بعض لوگوں نے مودی پر الزام لگایا کہ وہ اپریل میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل اپنے عوام کو پارٹی کے حق میںکرنے کیلئے اس طرح کی باتیںکررہے ہیں۔تاہم میرے ذرائع کے مطابق یہ بحران مستقبل کے بحرانوں کے اَن دیکھے خطرات کی نشاندہی کررہا ہے۔
توجہ طلب امر یہ ہے کہ ماضی میں ہونے والے بحرانوں کا دائرہ زمین تک محدود رہتا تھا۔ اس مرتبہ بحران نے فضائی حملوں کی شکل اختیار کرلی۔اس نے نئی دہلی کے حکام کو جدید لڑاکا طیاروں کا سودا جلد طے کرنے کی تحریک دی کہ ہندوستانی فضائیہ کو انکی اشد ضرورت ہے۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ہندوستانی ہواباز کی رہائی اس بحران کے خاتمے کی علامت ہے مگر حقیقت ایسی نہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان وسیع تر مسابقت کے آثار افق پر نظر آنے لگے ہیں۔
نویں عشرے کے اواخر سے امریکہ ثالث کا کردار ادا کررہا ہے اور برصغیر میں امن کے معمار کے طورپر سامنے آیا ہے۔ سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے 1999ءکے دوران کارگل کی جنگ ختم کرانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ پھر 2001-02ءکے درمیان دونوں ملکوں کے درمیان محاذ آرائی رکوائی۔ امریکہ نے کشیدگی کی شدت کم کرائی۔ اس مرتبہ اس نے کوئی کردارادا نہیں کیا۔ امریکی وزیر خارجہ پومپیو نے صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیا کہ دونوں ملک احتیا ط سے کام لیں۔ ایسا لگتا ہے کہ دونوں ملکوں میں کشیدگی کم ہورہی ہے مگر مستقبل میں کشمیر کی صورتحال متاثر ہوسکتی ہے۔ اس تناظر میں دونوں ملک چین کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان بحران کے دوران چین سے ضمانتیں حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ اسلام آباد کے ساتھ چین کی منفرد دوستی ہے ۔حالیہ دنوں میں مزید مضبوط ہوئی ہے۔ چین پاکستانی بندرگاہ گوادرتک بیلٹ اور شاہراہ ریشم کی صورت میں عظیم الشان زریں دور کے خواب دیکھ رہا ہے۔ ہندوستان کو یہ منصوبہ قبول نہیں کیونکہ اسکا ایک حصہ کشمیر سے ہوکر گزر رہا ہے جسے ہندوستان اپنا گردانتا ہے۔ میرے ذرائع کاکہنا ہے کہ پاکستان کو پہلے یہ سمجھنا ہوگا کہ چین ، پاک چین اقتصادی راہداری کو منفی علاقاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے کی اجازت نہیں دیگا۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ سب سے پہلے چین نے ہی پاک ہند بحران جلد حل کرنے کا مطالبہ کیا۔ 
ہر پاکستانی کشمیری نئے بحران کے حوالے سے مطمئن نہیں۔ دستاویزی فلموں کے ہدایت کار سرگرم کشمیری طلعت بھٹ کا کہناہے کہ خود کش حملے نے کشمیری عوام کے حقوق کی پرامن سیاسی تحریک کو نقصان پہنچایا۔ طلعت بھٹ سویڈن میں قیام پذیر ہیں۔ انکا یہ بھی کہناہے کہ پاکستان کو جیش محمد سمیت دیگر مسلم جماعتوں کیخلاف کارروائی کرنا ہوگی۔ پاکستانی فوج کی اسٹراٹیجک مہم جوئیاں مسئلہ کشمیر کو نقصان پہنچائیں گی اور ہند کو اس قسم کے حملوں کے نتیجے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی پاداش سے بچانے میں معاون بنیںگی۔ پاکستان کے زیرقبضہ جموں و کشمیر آزادی محاذ کے سربراہ توقیر گیلانی نے تسلیم کیا کہ خود کش حملے سے کشمیری المیے کے تئیں عالمی برادری کی کوئی ہمدردی نہیں ملی۔ اس سے جنوبی ایشیا میں اسلحہ کی دوڑ میں اضافہ ہوگا اور پورا علاقہ پسماندہ رہیگا۔
ہند نے اقوام متحدہ سے ایک بار پھر جیش محمد اور اسکے رہنما مولانا مسعود اظہر کو دہشتگرد قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے تاہم چین نے معمول کے مطابق نئی دہلی کی کوششوں کو ناکام بنادیا۔ یہ بات بھی یقینی ہے کہ چین شدت پسندو ںکی مدد سے متعلق اسلام آباد کی پالیسی میں دخل انداز نہیں ہوگا تاہم کشمیری جنگجوﺅں کے خلاف ممکنہ بین الاقوامی ردعمل کی صور ت میں جیش محمد اور اسکے رہنما کے خلاف چینی ردعمل فیصلہ کن ہوگا۔ ہندوستان میں حکومت سے مذکورہ جماعتوں کیخلاف یکطرفہ کارروائی کے مطالبے میں اضافہ ہورہا ہے تاہم یکطرفہ کارروائی علاقے میں امن اور جنوبی ایشیا کی ایٹمی طاقتوں کے تعلقات کے حوالے سے تباہ کن ثابت ہوگی۔ گزشتہ سال چینی وزیر خارجہ نے ایک عجیب و غریب جملہ استعمال کیا۔ انہوں نے پاک و ہند کے تعلقات کی بابت کہا کہ ”چین اور ہندوستان کو ایک دوسرے سے لڑنا نہیں بلکہ مل جل کر رقص کرنا ہوگا“ ۔ ابھی تک پاک و ہند کے درمیان پیش آنے والی صورتحال غیر یقینی نظرآرہی ہے تاہم یہ امر یقینی ہے کہ اس قسم کا بحران مستقبل میں پھر برپا ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ کیا دونو ںملکوں کے موثر اداروں یا امریکہ اور چین نے اس بحران سے کوئی سبق لیا ہے؟ایسا سبق جو مستقبل میں برپا ہونے والے یقینی بحران کی شدت کے خطرات کو کم کرسکتا ہو۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: