Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’بیٹے کی موت پر نڈھال لیکن بہادری کی خبر پر حوصلہ بھی ملا‘‘

اعظم خان، اسلام آباد
 
نیوزی لینڈ  کے شہر کرائسٹ چرچ میں مسجد میں فائرنگ کے واقعے میں ہلاک ہونے والے پاکستانی نعیم رشید کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے ان کی والدہ اور بھائی خورشید عالم سوموار کی رات لاہور سے نیوزی لینڈ کے لیے روانہ ہوں گے۔
خورشید عالم نے اردو نیوز کو بتایا کہ امکان ہے کہ آئندہ جمعہ کو ان کے چھوٹے بھائی نعیم رشید کی آخری رسومات کرائسٹ چرچ میں ادا کی جائیں گی اور وہ اپنی والدہ کے ہمراہ آج رات لاہور سے نیوزی لینڈ کے لیے روانہ ہوں گے۔ 
حکومت پاکستان کی جانب سے نعیم رشیدکو قومی اعزاز دینے کے اعلان سے متعلق جب اردو نیوز نے ان کے بھائی سے پوچھا تو انہوں نے بتایا ہمیں میڈیا سے ہی معلوم ہواہے کہ حکومت نے نعیم رشید کے لیے تمغہ کا اعلان کیا ہے، لیکن حکومت کی طرف سے کسی نے ابھی تک ہمیں اس بارے میں آگاہ نہیں کیا ہے۔‘

 خورشید عالم نے  ویزہ کے حصول کیلئے حکومت پاکستان کی جانب سے فوری اقدامات کو سراہتے ہوئے کہاکہ ویزہ حاصل کرنے کے عمل میں دفتر خارجہ نے ہماری بہت مدد کی جس پر ہم شکرگزار ہیں۔ 
ایبٹ آباد میں موجود نعیم رشید کی کزن آمنہ سردار نے اردو نیوز کو بتایا کہ نعیم رشید کی والدہ  افسوسناک خبر سنتے ہی صدمے سے نڈھال ہوگئیں، لیکن جب انہیں پتا چلا کہ ان کے بیٹے نے اپنی بہادری سے کئی قیمتی جانیں بچائی ہیں تو ان کو بہت حوصلہ ملا، وہ اپنے بہادر بیٹے کی آخری رسومات میں شرکت کرنا چاہتی ہیں۔
آمنہ نے  نعیم رشید کے بچپن کی کچھ یادیں بھی  اردو نیوز کے ساتھ شیئرکیں اور بتایا  کہ وہ بچپن میں بہت شرارتی تھے۔’نعیم رشید کو کرکٹ کو بہت شوق تھا اورہم سب گھرمیں بھی ان کے ساتھ زیادہ کرکٹ کھیلتے تھے۔اکثر کھیل کے دوران میری ان سے بالکل نہیں بنتی تھی لیکن ایک گھر میں تربیت ہوئی تو محبت بھی زیادہ تھی۔‘  
آمنہ کہتی ہیں کہ نعیم کو مطالعےکا بھی بہت شوق تھا،خاندان میں جنرل نالج میں کوئی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا۔

یاد رہے کہ  نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں مساجد میں حملہ آور کو روکنے کی کوشش کے دوران پاکستانی پروفیسر نعیم رشید ہلاک ہوگئے تھے۔ نعیم رشید کا تعلق ایبٹ آباد سے تھا اور انہوں نے  آرمی برن ہال کالج  سے تعلیم حاصل کی اورپھر گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔  شادی کے بعد نعیم رشید نیوزی لینڈ چلے گئے اور پھر وہیں شعبہ تدریس سے وابستہ ہوگئے۔ ان کےسوگواران  میں ان کی بیوہ اور تین بیٹے  طلحہ، عبداللہ اور پانچ سال کے  ایان شامل ہیں۔
 

شیئر: