Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’کئی ملزمان ٹرائل کے دوران ملک سے باہر گئے اور واپس نہیں آئے‘‘

 
 
اے وحید مراد 
 
پاکستان کے سابق وزیرا عظم نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت کے مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ میڈیکل رپورٹس دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ بظاہر ان کا علاج جیل میں ممکن نہیں جبکہ قانون کے مطابق قیدی کوعلاج کے لیے صرف ہسپتال منتقل کیا جا سکتا ہے ۔ 
عدالت نے نواز شریف کے وکیل کی جانب سے پیش کی گئی پانچ طبی رپوٹس کا معائنہ کرنے کے بعد وفاق اور قومی احتساب بیوروکو نوٹس جاری کر دیے ہیں۔ 
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ’ہم سب جانتے ہیں کہ وہ (نواز شریف) لندن میں زیرعلاج رہے ہیں ۔‘
منگل کو چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے مقدمے کی سماعت کا آغاز کیا تو کمرہ عدالت میں مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی ۔ 
کمرہ عدالت میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، ایاز صادق،احسن اقبال، پرویز رشید، رانا ثنا اللہ اور حمزہ شہباز اگلی نشستوں پر بیٹھے ہوئے تھے ۔ 
نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ سابق وزیراعظم کے علاج کے لیے ضروری ہے کہ ان کی زندگی سڑیس فری (دباؤ سے آزاد) ہو۔ اس کے لیے صرف جیل سے باہر ہونا ہی نہیں بلکہ آزاد شہری کے طور پر ذہنی آسودگی میسر ہونا بھی ضروری ہے ۔ 
خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ سٹریس میں کمی کے لیے ضمانت پر رہائی ضروری ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے پاکستان میں کسی ڈاکٹر سے علاج نہیں کرایا، یہاں ڈاکٹر صرف ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں ۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ طبی رپورٹس دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ بظاہر ان کا علاج جیل میں ممکن نہیں، قانون کے مطابق ہسپتال منتقل کیا جا سکتا ہے ۔ 
وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف کی دو اوپن ہارٹ سرجریز ہو چکی ہیں اور سات سٹنٹ ڈالے گئے ہیں، ڈاکٹر کہتے ہیں کہ ہم ان کا عام مریضوں کی طرح علاج نہیں کر سکتے ۔ 
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وکیل خواجہ حارث سے کہا کہ ’آپ کا کہنا یہ ہے کہ وہ صرف بیرون ملک علاج کرا سکتے ہیں، کیا وہ ضمانت ملنے پرباہر جا سکتے ہیں، ان کا نام تو ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ہے۔‘
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پوچھا کہ کیا کوئی ایسی مثال ہے کہ سزا یافتہ شخص علاج کے لیے بیرون ملک جائے؟۔
چیف جسٹس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ البتہ کئی ایسے ملزمان ہیں جو ٹرائل کے دوران ملک سے باہر گئے اور واپس نہیں آئے ۔ 
جسٹس یحیٰی آفریدی نے وکیل خواجہ حارث سے کہا کہ پہلے مرحلے میں حتمی ریلیف نہ مانگیں، اگر ان کے ذہن میں کچھ ڈاکٹروں کے نام ہیں تو نام بتائیں تاکہ وہ دیکھ سکیں ۔ 
خواجہ حارث  نے کہا کہ بغیر ضمانت ملے وہ ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر یہ فیصلہ نہیں کر سکتے، اس کے لیے فری مائنڈ ہونا چاہیے ۔ نوازشریف کہیں نہیں جا رہے ۔ استدعا یہ ہے کہ سٹریس فری موقع دیں تاکہ وہ فیصلہ کر سکیں ۔ 
عدالت نے نواز شریف کے وکیل کی جانب سے پیش کی گئی پانچ طبی رپوٹس کا معائنہ کرنے کے بعد وفاق اور قومی احتساب بیوروکو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 26مارچ تک ملتوی کر دی ۔ 
چیف جسٹس آصف کھوسہ نے سماعت کے اختتام پر کہا کہ آئندہ سماعت پر مقدمہ ملتوی نہیں کیا جائے گا، فریقوں کو سن کر فیصلہ کریں گے ۔ 
 

شیئر: