Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’تجارتی جعلسازی‘‘ کی مخبری پر انعام

ابراہیم محمد باداود ۔ المدینہ
یہ درست ہے کہ ملبوسات، خوشبویات، گھڑیوں، چرمی مصنوعات مثلاً پرس اور جوتوں میں جعلسازی ہورہی ہے۔ بعض الیکٹرانک آلات بھی جعلی فروخت ہورہے ہیں۔ کئی مصنوعات نقلی ہیں تو متعدد مقررہ معیار کے مطابق نہیں۔  ایسی چیزیں بھی مارکیٹ میں بھری ہوئی ہیںجو ناقابل استعمال ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا وزارت تجارت و سرمایہ کاری ان اشیاء سے آنکھیں موندے ہوئے ہے؟ نہیں ایسا بھی نہیں۔ دراصل جعلی ، ملاوٹی اور غیر معیاری اشیاء کا پتہ لگانے کیلئے وزارت تجارت کے پاس جو عملہ ہے  وہ ناکافی ہے۔ وزارت نے اس کے تدارک کے لئے نیا طریقہ کار اپنایا ہے۔ وزارت نے اعلان کیا کہ جو شخص بھی تجارتی جعلسازی کی مخبری کریگا اسے حتمی فیصلے کے بعد جرمانے کی 25فیصد رقم بطور انعام دی جائیگی۔
وزارت تجارت نے حال ہی میں الاحساء کمشنری کے ایک شہری کو غیر قانونی گودام اور تجارتی جعلسازی کی لیباریٹری کی اطلاع دینے پر 50ہزار ریال انعام سے نوازا۔ اطلاع پر چھاپہ مارا گیا تھا جس سے پتہ چلا کہ کارکن گودام میں جعلی خوشبویات بوتلوں میں بھر رہے تھے اور پھر انہیں معروف تجارتی مارکہ جات والے ڈبوں میں پیک کررہے تھے۔ عام گاہک انہیں تجارتی مارکہ والی خوشبویات سمجھ کر خرید رہے تھے۔ عدالت نے الزام ثابت ہوجانے پر گودام کے مالک پر 2لاکھ ریال جرمانہ کیا تھا۔ اس کی 25فیصد رقم (50ہزار ریال) جعلسازی کی اطلاع دینے والے  سعودی شہری کے حوالے کردی گئی۔
تجارتی جعلسازی قابل مذمت عمل ہے۔ جعلساز ناجائز مقاصد کی تکمیل کیلئے حیلے بہانے اور مکرو فریب سے کام لیتے ہیں۔ کبھی کبھی جعلسازی میں بدعنوانی، چوری اور غبن جیسے جرائم بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ مقصد نجی  منافع کا حصول ہوتا ہے۔ تجارتی جعلسازی کی بعض سرگرمیاں کھلم کھلا ہورہی ہیں۔ ان کی نشاندہی یا انہیں پکڑوانے کیلئے نہ رپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی ماہر افسران کی نظر اور اختیارات کی ضرورت پڑتی ہے۔  وجہ یہ ہے کہ بعض شہروں میں مختلف ناموں سے مارکیٹیں کھلی ہوئی ہیں جہاں جعلی سامان بیجا جاتا ہے۔ مثال کے طورپر (السوق الصینی) چینی بازار،(سوق التخفیضات) سستی مارکیٹ کے نام سے جو بازار کھلے ہوئے ہیں وہاں اصلی نہیں بلکہ جعلی اشیا ء ہی بیچی جاتی ہیں۔ ان بازاروں میں جعلی اشیاء اصلی اشیاء کی قیمت سے 10گنا کم قیمت پر مل جاتی ہیں۔ کئی لوگ اس سلسلے میں بھی فنکاری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر تاجر کہتا ہے کہ ہمارے یہاں یہ سامان اصل جیسا ہے۔ بعض اشیاء کو نقلی اور دیگر کو سستی (تجارتی) کہہ کرفروخت کرتے ہیں۔
تجارتی جعلسازی سے قومی اقتصاد کو سالانہ 40ارب ریال سے زیادہ کا نقصان ہورہا ہے۔  یہ تبدیلی خوش آئند  ہے کہ مقامی شہری تجارتی جعلسازی کو طشت از بام کرنے میں اپنا کردارادا کرنے لگے ہیں۔ قومی اقتصاد کو گراوٹ سے بچانے کیلئے یہ عمل بیحد اہم اور ضروری ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: